مختصر تاریخِ جامعہ: ڈاکٹر ضیاء الدین ملک فلاحی

۱- مکتب اسلامیہ سے جامعۃ الفلاح تک (تشکیل کا عبوری دور)

ہندوستان میں مسلمانوں کے عہدِ حکومت میں کوئی ایک قریہ/ بستی ایسی نہیں نظر آئی جہاں مدرسہ/ مکتب/ مسجد نہ ہو۔ ان تمام جگہوں پر ناظرہ، تلاوت، حفظِ قرآن اور بنیادی اسلامی تعلیمات (فقہ) کی تعلیم کا نظم کیا گیا۔ ہندوستان کے تمام اضلاع کے Gazetteers میں متعلقہ گاؤں/ قصبات کا پورا ریکارڈ موجود ہے۔ قصبہ بلریاگنج۱؎ اعظم گڑھ، یوپی (انڈیا) کا بھی اس پس منظر میں استثنا نہیں ہے۔ اس بستی میں ۱۹۱۴ء میں مکتب اسلامیہ کے نام سے درجہ دوم تک ابتدائی تعلیم وتربیت کا نظام رائج تھا۔ اس بستی کے جن علم دوست وملت نواز احباب نے تعلیم کے زیور سے گاؤں کے بچوں/ بچیوں کو مالامال کرنے میں خضرِ طریق کا کردار ادا کیا ان میں جناب علی احمد خاں صاحب اور منشی لعل محمد خاں صاحب کا کردار جلی حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے، جنھیں گاؤں کے تمام اہالیان کا سرگرم تعاون حاصل رہا۔ ان دونوں حضرات نے ۱۹۱۴ء سے اس مقدس فرضِ کفایہ کی انجام دہی میں تن من دھن سے اپنے آپ کو لگا دیا۔ منشی لعل محمد اس مکتب کے پہلے استاذ تھے، جب کہ علی احمد خاں کو منیجر مقرر کیا گیا تھا۔ اس مکتب کی خشتِ اوّل جناب ولی محمد خاں صاحب کے رہائشی گھر پر رکھی تھی جو ۱۹۱۶ء تک نظم وضبط کے ساتھ ابتدائی تعلیمی کارواں کی ناؤ کھیتے رہے۔

۱۹۱۶ء میں ایک تبدیلی عمل میں آئی۔ مقامی اہل خیر حضرات کے مشورے وتعاون سے موجودہ مودودی ہاسٹل کے جنوب میں ایک کھپریل کی کٹیا تیار کی گئی۔ چنانچہ اب مکتب اسلامیہ اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے جناب ولی محمدخاں کے مکان سے نکل کر اپنے نئے تعمیرشدہ علمی مسکن میں فروکش ہوگیا۔

علی احمد خاں صاحب نے مکتب اسلامیہ کے منیجر کی حیثیت سے ۱۹۱۴ء سے لے کر ۱۹۲۷ء تک کل تیرہ سال خدمات انجام دیں۔ ۱۹۲۷ء میں انھوں نے مینجمنٹ کی ذمہ داری اپنے صاحب زادے محمد حنیف خاں کے کندھوں پر ڈال دی اور خود سفرِ حج پر روانہ ہوگئے اور وہیں مالکِ حقیقی سے جا ملے۔

محمد حنیف خاں نے اپنے والدِ محترم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سخت جدوجہد کا مظاہرہ کیا اور بڑے شوق سے مکتب کی خدمت کی۔ مکتب اسلامیہ کو ان کی سرپرستی پورے ۲۷ سال یعنی ۱۹۲۷ء سے ۱۹۵۴ء تک حاصل رہی۔ ان کی نظامت کے دوران مکتب اسلامیہ نے دن دونی رات چوگنی ترقی کی۔ اپنی سرگرم نظامت کی وجہ سے وہ اتنے مقبول ہوئے کہ قصبے اور گرد وپیش کے لوگ انھیں حقیقی نام سے کہیں زیادہ ’منیجر صاحب‘ کے نام سے جاننے لگے، لیکن ۱۹۵۴ء میں آپ نے بھی فریضۂ حج کے لیے رختِ سفر باندھا اور جاتے جاتے مکتب اسلامیہ کی پوری دیکھ بھال کی ذمہ داری حاجی امانت اﷲ صاحب کے حوالے کردی۔ لیکن انتہائی مختصر عرصے کے بعد ہی حاجی عبد المجید خاں عرف میاں جی مجید ولد صاحب علی خاں نے مکتب اسلامیہ کی ذمہ داری سنبھالی۔۲؎

مکتب اسلامیہ کو دوسرا مخلص استاذ منشی محبوب علی خاں کی شکل میں نصیب ہوا جنھوں نے ۱۹۲۸ء سے ۱۹۵۶ء تک عظیم خدمات پیش کیں۔ مکتب اسلامیہ کو دوسرے مخلص اساتذہ کی خدماتِ جلیلہ بھی میسر رہیں۔ ان اساتذہ میں مولوی اسحاق (کوہنڈہ)، مولوی خلیل (مہراج گنج)، حافظ لطف اﷲ (انجان شہید)، نظیراحمد (مہراج گنج) اور مولوی عبدالستار سبھی ضلع اعظم گڑھ کے باشندے شامل ہیں۔ مزید دو مشہور اساتذہ محترم جلاء الدین (مہراج گنج) اور حافظ جی (کوہنڈہ) بھی ۱۹۳۲ء کے پہلے کے اسٹاف میں شامل تھے۔ ۱۹۳۲ء میں محترم مولوی محمد ادریس صاحب کا بحیثیتِ استاذ تقرر ہوا اور انھوں نے پہلے مکتب اسلامیہ اور مدرسہ اسلامیہ اور آخر میں جامعۃ الفلاح کی ۱۹۹۰ء تک مسلسل ۵۸ سال خدمت انجام دی۔۳؎  اس عرصے میں مدرسہ کی تعمیر وترقی میں ان کی خدمات کا بڑا حصہ ہے۔

بلریاگنج کا مکتب اسلامیہ جلد ہی حکومت سے منظور ہوگیا اور حکومت سے اسے مالی اعانت بھی حاصل ہوگئی۔ ۱۹۳۰ء تک اس مکتب میں ضلع اعظم گڑھ کے نصیرپور، ہنگائی پور، شہاب الدین پور اور بلریاگنج قصبے کے تقریباً ۳۰ طلبہ کا اندراج تھا۔۴؎

۱۹۵۶ء تک یہ ادارہ مکتب اسلامیہ، مدرسہ اسلامیہ یا مکتب امدادیہ کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ عام قول کے مطابق ۱۹۵۶ء تک اپنے ۴۲ سالہ زمانے میں (۱۹۱۴ء-۱۹۵۶ء) یہاں بسا اوقات درجہ پنجم کے معیار کی تعلیم کا نظم تھا۔ بدقسمتی سے حکومت کے تعلیمی شعبے کے ڈپٹی انسپکٹر نے اپنے دورے پر مکتب کے منیجر کو مشورہ دیا کہ سرکاری اسکول کی موجودگی میں مکتب کو درجہ پنجم تک چلانے کی ضرورت نہیں ہے، درجہ دوم اور سوم تک کے طلبہ کو اُردو، فارسی اور ریاضی کی بنیادی معلومات مکتب میں دیجیے اور پھر انھیں آسانی سے سرکاری اسکولوں میں داخل کیا جاسکتا ہے۔ یہ چیز مکتب اسلامیہ کی ترقی میں مانع ثابت ہوئی، کیوں کہ اس کے نتیجے میں مکتب کی نہ صرف ترقی رُک گئی بلکہ بعض درجات توڑنے پڑے۔۵؎

بہرحال قصبے کے لوگوں کی انتہائی جدوجہد اور سعی وکوشش سے مکتب اسلامیہ آہستہ آہستہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے مسلسل سرگرم عمل رہا۔ اسکول کے نظم ونسق اور انتظام کا تصور اس دوران بڑا آسان تھا، کیوں کہ اسکول کو چلانے کے لیے نہ تو کوئی انتظامیہ تھی اور نہ کوئی اور کمیٹی۔ مکتب کا منیجر ہی تنہا اپنی ذات میں تمام معاملات کا جواب دہ ہوتا تھا۔ انتظامی امور، اساتذہ کا تقرر اور مالیات کے لیے چندہ وغیرہ کے تمام معاملات منیجر سے متعلق تھے۔ اپریل یا مئی کے مہینے میں سال میں ایک بار گاؤں کی عمومی پنچایت کے سامنے مکتب کے آمد وخرچ کا گوشوارہ منیجر کے ذریعے پیش کیا جاتا تھا۔

بلریاگنج کے مکتب اسلامیہ میں تعلیم مفت دی جاتی تھی۔ ٹیوشن فیس کے نام پر کوئی فیس نہیں تھی۔ انیسویں صدی کے چوتھے اور پانچویں عشرے میں تقریباً ۱۰۰ طلبہ مکتب میں زیرتعلیم تھے۔ ذرائع آمدنی کا جہاں تک تعلق ہے تو کچھ تعاون مکتب کو حکومت سے مل جاتاتھا، جب کہ بقیہ اخراجات عوامی چندے سے، جسے چٹکی کہا جاتا تھا، پورے ہوجاتے تھے۔

ان دنوں مکتب کو عموماً ’کچے اسکول‘ جب کہ سرکاری اسکولوں کو ’پکے اسکول‘ کے ناموں سے جانا جاتا تھا۔ تقریباً تمام ہی مسلم بچوں کو پہلے کچے اسکولوں میں داخل کیا جاتا تھا۔ درجہ دوم تک کی تعلیم سے فراغت کے بعد وہ پکے اسکول کا رُخ کرتے تھے۔ مکتب اسلامیہ کی تعلیم کی غرض وغایت بچوں کو عقائدِ اسلامیہ کا بنیادی علم پہنچانا اور انھیں قرآن مجید پڑھنے کے قابل بنانا ہوتا تھا۔

مدرسہ اسلامیہ

۲۰؍جولائی ۱۹۵۶ء کا دن ضلع اعظم گڑھ کے لیے ایک اہم اور تاریخی دن تھا۔ اس دن قصبہ بلریاگنج میں ایک عام اجلاس منعقد ہوا۔ ایک کھلے خط کے ذریعہ ۵۲ لوگوں کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ یہ خط/دعوت نامہ مولوی محمد ابراہیم کے بدست جاری ہوا جس کا متن یہ تھا: 

’’آج بتاریخ ۲۰؍جولائی ۱۹۵۶ء کو بوقت بعدعشاء شیخ محمدادریس صاحب کے دروازہ پر عام میٹنگ منعقد ہوگی، جس میں گاؤں کا ہر چھوٹا بڑا مسلمان شریک ہو۔ اس میٹنگ میں درج ذیل اصحاب کی شرکت تو اشد ضروری ہے۔ اس میٹنگ میں تین اہم امور پیش کیے جائیں گے اور ان پر بحث ہوگی: (۱) مدرسہ کے لیے ایک انتظامیہ کمیٹی کا بنانا۔ (۲) مدرسہ کے لیے مدرس کے بارے میں سوچ بچار۔ (۳)اسکول کا تعلیمی نصاب مقرر کرنا‘‘۔۶؎

خط میں ۵۲ اشخاص میں سے۳۵ کے مکمل ومختصر دستخط بھی موجود ہیں جس سے معلوم ہوتاہے کہ تمام ہی اشخاص تک خط کو پہنچایا گیا اور نتیجے میں انھوں نے وصولیابی کی اطلاع کے طورپر اپنے دستخط بھی ثبت کردیے۔

پروگرام کے مطابق ۲۰؍جولائی ۱۹۵۶ء کو بلریاگنج میں عام اجلاس منعقد ہوا جس میں مدرسہ اسلامیہ کی نشوونما وترقی اور مذہبی واسلامی علوم کی تقویت وتائید کو وقت کی ضرورت سمجھا گیا۔ اس رسمی اجلاس میں حسب ذیل اہم فیصلے لیے گئے:

(۱)ادارے کا نام مکتب اسلامیہ یا مکتب امدادیہ کے بجائے مدرسہ اسلامیہ رکھا گیا۔

(۲)دو کمیٹی: ایک انتظامیہ اور دوسری تعلیمی کی تشکیل عمل میں آئی۔

انتظامیہ کے لیے ۱۴ ممبران کا انتخاب ہوا۔ یہ ممبران درج ذیل ہیں:

۱۔قمرالدین ۲۔عبدالمجید خاں ۳۔عبدالجبارخاں ۴۔نجیب الحق ۵۔حاجی بشیرخاں ۶۔شیخ محمد ادریس ۷۔مرزا عبدالقدوس ۸۔امانت اﷲ ۹۔شیخ ملتان احمد ۱۰۔منشی فوج دارخان ۱۱۔منشی رحمت اﷲ خاں (تین اور مذکورہ ناموں میں سے تھے)

جب کہ پانچ ممبران: بابومحمد فریدخاں، عبدالمتین خاں، عبدالمجیدخاں (ماسٹر)، مولوی محمدابراہیم اور حکیم محمد ایوب صاحب تعلیمی کمیٹی کے لیے منتخب کیے گئے۔ حاجی عبدالمجید خاں صاحب مدرسہ اسلامیہ کے ناظم اعلیٰ کے جلیل القدر منصب پر فائز ہوئے۔

(۳)ادارے کا ایک مختصر دستور منشی محمد فوجدار صاحب کے ہاتھ کا مرتب کردہ منظورہوا جس کے اہم نکات یہ تھے:

۱۔مجلس انتظامیہ ومجلس تعلیمی کی ہرمیٹنگ کی صدارت ناظم جامعہ کریں گے۔

۲۔ مجلس تعلیمی صرف تعلیمی امور کی نگرانی کرے گی، جب کہ دیگر امور مثلاً آمدو خرچ، اساتذہ کا تقرر وبحالی وغیرہ انتظامیہ کے ذمہ ہوں گے۔

۳۔ مجلس تعلیمی کے ممبران انتظامیہ میں بھی شامل کیے جائیں گے۔

۴۔ دونوں کمیٹیاں ضرورت پڑنے پر قصبہ کے کسی بھی فرد سے رائے مشورہ کرسکتی ہیں۔

(۴)عبدالمجید خاں مرحوم کو باقاعدہ ناظم منتخب کیا گیا۔

(۵)درجہ سوم کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔

یہ وہ پہلا دستور ہے جو آج چند ضروری حذف واضافہ اور ترمیم کے بعد دستور جامعۃ الفلاح کے نام سے جانا جاتاہے۔

۱۹۵۶ء سے مدرسہ اسلامیہ نے بڑی تیزی سے ترقی کے منازل طے کیے، اسی سال درجہ سوم کا اضافہ ہوا۔ ۱۹۵۷ء میں درجہ چہارم اور ۱۹۵۸ء میں درجہ پنجم تک متواتر اضافہ ہوتا چلا گیا۔ طلبہ کا پہلا گروپ پنجم پاس کرکے ۱۹۵۸ء میں نکلا۔

اپنی ترقی کے بالکل ابتدائی دور میں ہی مدرسہ اسلامیہ کو محترم مولوی ادریس صاحب (ہنگائی پور)، منشی محبوب علی خاں صاحب (بلریاگنج)، مولوی خلیل صاحب (غازی پور)، مولوی عبدالقدوس صاحب (چھترپور)، مولانا محمد عبدالرؤف قاسمی صاحب (مبارک پور)، ماسٹر محمداحمد صاحب (بلریاگنج) اور منشی محمد انور صاحب (بلریاگنج) جیسے متعدد معلّمین کی خدمات حاصل رہیں۔ ان تمام اساتذہ نے اپنے فرائضِ منصبی کو بڑی جاں فشانی سے ادا کیا اور مدرسہ اسلامیہ کو اسلامی تعلیم کا آئیڈیل ادارہ بنانے کی حتی المقدور کوشش کی۔

جامعہ اسلامیہ ۱۹۵۹ء میں بلریاگنج واطراف کے باشندگان کو عموماً اور انتظامیہ وتعلیمی کمیٹی کے ممبران کو خصوصاً مدرسے کی توسیع کی ضرورت کا احساس ہوا۔ لہٰذا اسی کے پیش نظر مختلف میٹنگ اور جلسے ہوئے۔ قصبہ بلریاگنج کے بعض شرکاء مثلاً محترم عبدالمجید خاں، محترم حکیم محمد ایوب، محترم منشی فوجدار، محترم مولوی محمد ابراہیم، محترم حاجی عبدالمتین، محترم حاجی امانت اﷲ، محترم قمر الدین، محترم محمد اکرام پردھان، محترم ڈاکٹر خلیل احمد اور محترم مولوی محمد عیسیٰ کے علاوہ دیگر بہت سے لوگوں نے توسیع مدرسہ کے لیے کوشش کی۔

۱۹۵۹ء تک درجہ پنجم کا آغاز ہوچکا تھا اور کچھ عربی ومذہبی تعلیم بھی داخلِ نصاب تھی۔ ساتھ ہی مدرسہ کا نام بدل کر ’’جامعہ اسلامیہ‘‘ کر دیا گیا۔

ثانوی درجات کے اضافے اور جامعہ اسلامیہ کو بحیثیت ایک اصلاحی، مذہبی ودینی ادارے کی شکل میں منظرِ عام پر لانے کی تحریک کے آغاز سے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ محمد عارف خاں کے مطابق مدرسہ کی توسیع کی تحریک محترم مولوی محمد عیسیٰ صاحب کی آغاز کردہ ہے جیسا کہ ان کا کہنا ہے:

’’مئی ۱۹۵۹ء تک جامعہ میں درجہ اوّل سے پنجم تک ہی تعلیم کا نظم تھا۔ اسی دوران عیسیٰ صاحب فراغت کے بعد یہاں آئے۔ عام اجلاس میں انھوں نے عظیم دینی وتعلیمی ادارے کا ایک ماہرانہ منصوبہ پیش کیا۔ اس تجویز کو پسند تو سب نے کیا، لیکن محدود ذرائع وقلتِ آمدنی کی وجہ سے کوئی اقدام نہیں کرسکا۔ بعد میں کچھ لوگوں نے اس کو قبول کرلیا اور یہ بات پورے قصبے میں پھیل گئی۔ لوگ الگ الگ صحبتوں میں اس پر بحث وگفتگو کرنے لگے۔ مولوی عیسیٰ صاحب نے مسلسل تین بار عام اجلاسوں میں اپنی تجویز پیش کی، یہاں تک کہ تیسرے اجلاس میں انھوں نے برملا کہا کہ ایک جھونپڑی بنائیے اور مجھے اس میں دینی ادارہ قائم کرنے دیجیے۔ درجہ پنجم کے بعد میں خود ہی مالیات واساتذہ کی فراہمی کا ذمہ دار رہوں گا۔ ان کے اصرار پر عوام نے انھیں مدرسے میں ایک نیا درجہ کھولنے کی اجازت دے دی‘‘۔۷؎

ماسٹر عبد الجلیل صاحب کے دعویٰ کے مطابق مدرسے کی تحریکِ توسیع محترم ڈاکٹر خلیل صاحب کی مرہونِ منت ہے۔ یہ تحریک اُس وقت وجود میں آئی جب ڈاکٹر صاحب ۱۹۵۶ء میں علی گڑھ سے تکمیلِ تعلیم کے بعد وطن واپس آئے تھے۔ وطن واپسی کے بعد آپ نے تحریکِ توسیع کی سرگرمیوں میں بڑی ہی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ وہ انفرادی طور سے پورے علاقے کے تمام ہی دانش وروں سے بلریاگنج میں دینی وجدید دونوں قسم کی تعلیم کی ترویج وترقی جیسے مسائل پر بحث وگفتگو کیا کرتے اور فیصلے لیتے۔ وہ ایک ایسے ادارے کے قیام کے بارے میں فکرمند رہا کرتے تھے جو دینی وجدید تعلیم کا ایک حسین امتزاج وسنگم ہو۔۸؎

جب کہ مفتی عبدالرؤف صاحب کے مطابق جب ۱۹۵۷ء میں بحیثیتِ استاذ ان کا تقرر ہوا تو مدرسہ بس ایک مکتب کی حیثیت سے جانا جاتا تھا جہاں ابتدائی درجات کی تعلیم کا نظم تھا۔ اسے مکتب اسلامیہ، مدرسہ اسلامیہ، جامعہ اسلامیہ کے مختلف ناموں سے جانا جاتا تھا۔ مفتی صاحب کے مطابق قصبہ بلریاگنج کے دانش وروں وذمہ داروں نے مدرسے کی توسیع کرنے کا فیصلہ لیا۔ مفتی صاحب نے سمجھا کہ مدرسے کے نصاب میں انگریزی اور جدید مضامین کو داخل کیا جائے گا اور علم جدید کی اشاعت کے لیے اسے کالج جیسا ادارہ بنایا جائے گا۔ لیکن مفتی صاحب کو بعد میں معلوم ہوا کہ ذمہ داران اس مدرسے کو ملک بھر میں اسلامی تعلیم کا ایک ایسا عظیم الشان قلعہ بنانا چاہتے ہیں جو علومِ جدیدہ کے پہلو بہ پہلو دینیات کی تعلیم کا بھی گہوارہ ہوگا۔ عمومی لحاظ سے قصبہ بلریاگنج کے تمام ہی باشندگان نے اس مہم میں بڑھ چڑھ کر دلچسپی کا مظاہرہ کیا جن میں ڈاکٹر خلیل صاحب کا نام خاص طور سے قابلِ ذکر ہے۔

جامعۃ الفلاح کے تاسیسی ممبران میں سے ایک حاجی امانت اﷲ صاحب ادارے کے خاکے کے ابتدائی نقوش کی وضاحت اور تحریکِ توسیع کے دونوں مواقع یعنی ۱۹۵۶ء و۱۹۵۹ء حکیم محمد ایوب صاحب سے منسوب کرتے ہیں، جب کہ ماسٹر جنید صاحب ایک دینی درس گاہ کی تجویز اور اس کی خاکہ کشی کو حاجی محمد اکرام پردھان سے منسوب کرتے ہیں۔ ان کے مطابق مرورِ زمانہ کے ساتھ اپنے ترقیاتی مقاصد کے حصول سے بہرور ہوتے ہوئے جامعہ جب ۱۹۵۹ء میں داخل ہوا تو اعلان کیا گیا کہ مدرسے کو جامعہ بنانا ہے جس کے توسط سے اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن ہوسکے۔ اس وقت کے ناظم حاجی عبد المجید صاحب نے انتظامیہ کی ذمہ داری حاجی محمد اکرام پردھان کے سپرد اِن الفاظ کے ساتھ کی: ’’میں اب ایامِ پیری سے گزر رہا ہوں اور یہ کام روز بروز بڑھ رہا ہے، لہٰذا اس کام کو کسی نوجوان، بہادر اور متحرک شخص کے حوالے کر دینا چاہیے۔ حاجی محمد اکرام پردھان ہی نے مدرسے کو جامعہ اسلامیہ کا نام دیا تھا۔ جامعہ کے اکاؤنٹ میں انھیں صرف ۱۵ پیسے ملے تھے، جب کہ اسٹاف میں موجود پانچ اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ ۱۴۶ روپیہ تھی‘‘۔۹؎

دوسری طرف مولوی محمد عیسیٰ صاحب کا خیال ہے کہ انھوں نے ۱۹۵۹ء کے عام اجلاسوں میں متعدد بار مقامی حضرات کے سامنے ایک دینی ادارے کی حیثیت سے مدرسے کو ترقی دینے کے مسئلے کی گزارش کی تھی اور ان سے کہا تھا کہ قصبہ بلریاگنج کو اطراف میں چوں کہ مرکزیت حاصل ہے اس لیے یہاں ایک دینی ادارے کا قیام عمل میں آنا چاہیے، تاکہ وہ بخیر وحفاظت اپنی منزل طے کرسکے۔ تمام ہی عوامی نمائندگان وشرکاے اجلاس نے ان کے مشورے کو قبول کیا اور اس طرح سے جولائی ۱۹۵۹ء میں مدرسے میں درجہ ششم کا اضافہ ہوا۔۱۰؎

درجہ ششم کے آغاز سے مدرسے کی ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ جامعہ کے مؤسّسین کے سامنے دو مختلف تعلیمی نمونے زیرِغور تھے۔ ایک تو یہ کہ مدرسے میں خالص دینی اور بقدرِ ضرورت جدید مضامین کی تعلیم کا بھی نظم ہو۔ دوسرا نظریہ یہ تھا کہ ادارہ جدید کالج کی طرح کا ہو جہاں دینیات کی تعلیم بھی فراہم کی جائے۔ لمبی بحث وگفتگو اور غور وخوض کے بعد پہلی رائے کو ہی موزوں سمجھا گیا اور اسے شرفِ قبولیت عطا ہوئی۔۱۱؎

مولوی محمد عیسیٰ صاحب کو جب استاذ مقرر کیا گیا تو انھوں نے جامعہ کے نصاب میں عربی زبان کی کچھ بنیادی کتابیں داخل کیں، لیکن وہ یہ کام منظّم انداز میں نہیں کرسکے۔ جولائی ۱۹۵۹ء کے اسی مہینے میں مولوی رحمت اﷲ، شیخ ادریس اور محترم جنید احمد صاحب کا بھی تقرر عمل میں آیا۔ مولوی محمد عیسیٰ ومولوی رحمت اﷲ صاحب عربی ودینیات پڑھاتے تھے، جب کہ ماسٹر جنید صاحب انگریزی وہندی کے استاذ تھے۔

۱۹۵۹ء تک ثانوی درجات کی ابتدا سے عربی، اُردو، انگریزی، ریاضی، تاریخ، جغرافیہ، عام معلومات، جلدسازی اور باغبانی وغیرہ جیسے متعدد مضامین جامعہ کے نصابِ تعلیم میں داخل کیے گئے اور بہ حسن وخوبی ان کی تعلیم وتدریس ہوتی رہی۔ نصاب میں داخل کتابیں جماعتِ اسلامی ہند کی تیار کردہ تھیں، لیکن اس کا الحاق ضلع تعلیمی بورڈ سے بھی رہا۔ اس لیے یہ مدرسہ، جامعہ اسلامیہ ہی کے نام سے پکارا جاتا رہا۔

دینی تعلیمی کونسل سے الحاق

۶؍نومبر ۱۹۶۰ء بروز اتوار جامعہ اسلامیہ بلریاگنج میں دینی تعلیمی کونسل کی ایک عام میٹنگ منعقد کی گئی۔ انجمن تعلیمات دینی کی مقامی کمیٹی کی تشکیل قصبہ بلریاگنج میں ہوئی اور ڈاکٹر خلیل صاحب کو اس کا سکریٹری یا صدر منتخب کیا گیا۔ ۹؍دسمبر ۱۹۶۰ء کو جامعہ اسلامیہ کا انجمن تعلیمات دینی (دینی تعلیمی کونسل) سے الحاق ہوا۔ انجمن کی کوششوں سے بلریاگنج کے اردگرد بہت سے دوسرے مکاتب بھی قائم ہوئے۔ ان کی تنظیم میں جامعہ اسلامیہ نے بڑا اہم رول ادا کیا۔ الحاق کرانے کی کوششوں میں بلریاگنج کی تین سرکردہ ہستیوں کی کوششیں شامل رہی ہیں، محمد اکرام پردھان، حکیم محمد ایوب اور ڈاکٹر خلیل احمد۔ ان حضرات نے سکریٹری انجمن تعلیمات دینی اعظم گڑھ سے ملاقات کی اور جامعہ اسلامیہ کا الحاق کرا لیا۔

۱۹۵۹ء سے ۱۹۶۱ء تک کے تین سال جامعہ اسلامیہ کی تدریجی ترقی میں اہم ونمایاں ہیں، کیوں کہ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ جامعۃ الفلاح کا خوابیدہ تخیل عملی واقدامی پوزیشن اختیار کرنے جا رہا تھا۔ ابتدا میں عربی زبان کے کچھ غیر مستقل کورسز داخلِ نصاب تھے، لیکن رفتہ رفتہ ان کی جگہ منظّم نصاب نے لے لی۔ مزید برآں یہ دور بہت ساری تبدیلیوں کی وجہ سے بھی نمایاں ہے۔ مثلاً ۱۹۶۰ء میں یہ فیصلہ لیا گیا کہ ضلع تعلیمی بورڈ سے جامعہ کا الحاق منسوخ کرایا جائے اور اس فیصلے کو ۱۹۶۱ء میں عملی جامہ پہنایا گیا۔ اس فیصلے کے لازمی نتیجے کے طور پر مئی ۱۹۶۱ء میں ضلع تعلیمی بورڈ کے ماتحت جامعہ کا آخری Batch (گروپ) امتحان میں شریک ہوا۔ یہ قدم ادارے کی خود مختاری کو قائم رکھنے کے لیے اٹھایا گیا تھا۔

مؤسّسینِ جامعہ نے بالکل آغاز ہی سے یہ منصوبہ بنا لیا تھا کہ جامعہ خود مختار ہوگا۔ وہ اپنی مرتّب کردہ پالیسی پر عمل پیرا ہوگا۔ حکومت کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوگا۔ ڈسٹرکٹ بورڈ سے منسوخی کے قدم سے قصبے کے لوگوں کو اپنے بچوں کا مستقبل تاریک نظر آنے لگا تھا۔ انھیں لگا کہ اب ان کے بچوں کا داخلہ جونیئر بیسک ہائی اسکول میں نہیں ہو سکے گا۔ ۵؍مئی ۱۹۶۱ء کو قصبے کی دونوں مسجدوں میں لوگوں کو عام اجلاس کی دعوت دی گئی اور نمازِ جمعہ کے بعد قدیم مسجد میں عام اجلاس منعقد ہوا۔ سب سے پہلی اور بنیادی چیز جو اس میٹنگ میں زیرِ بحث آئی وہ نیا نصاب تھا۔ لوگوں نے اپنے اضطراب کا اظہار کیا کہ اب تو ہمارے بچے ڈسٹرکٹ بورڈ کے امتحان میں شریک نہیں ہو پائیں گے، نتیجتاً جونیئر ہائی اسکول میں ان کا داخلہ بھی نہیں ہو سکے گا۔ میٹنگ میں موجود کسی شخص نے اس مسئلے کے ضمن میں انجمن تعلیمات دینی کے قاضی عدیل عباس کا حوالہ بھی دیا۔

اسی میٹنگ یعنی ۵؍مئی ۱۹۶۱ء کو پہلی مجلس عاملہ کی تشکیل بھی ہوئی جس میں پندرہ ممبران کا انتخاب عمل میں آیا جن کے اسماے گرامی یہ ہیں: محمد اکرام خان، قمر الدین خان، مطیع الرحمن خان، ڈاکٹر وکیل احمد، ڈاکٹر خلیل احمد، امانت اﷲ انصاری، عبد القدوس، محمد مبین، منشی فوجدار، حاجی عبد المجید خان، حاجی حسرت خان، ماسٹر عبد المجید خان، حکیم محمد ایوب، ماسٹر محمد ابراہیم اور متین احمد۔۱۲؎

مجلس عاملہ نے اپنی پہلی میٹنگ ۱۵؍مئی ۱۹۶۱ کو منعقد کی۔ حاجی عبد القدوس صاحب کو صدر، محمد اکرام پردھان صاحب کو منیجر اور ڈاکٹر خلیل صاحب کو خازن مقرر کیا گیا۔ تعلیمی کمیٹی کے لیے ڈاکٹر وکیل احمد، ڈاکٹر خلیل احمد اور حاجی متین صاحب کو نام زد کیا گیا۔

۳؍جولائی ۱۹۶۱ء کو بلریاگنج کی پچھّم والی مسجد میں منعقدہ میٹنگ کے اندر تعلیمی کمیٹی نے درج ذیل تین قرار دادیں پاس کیں:

۱۔ادارہ (جامعہ اسلامیہ) آزاد وخود مختار رہے گا اور اسلامی دائرے میں رہ کر اپنی پالیسی خود ہی بنائے گا۔

۲۔ایسا نصابِ تعلیم وضع کیا جائے جو بچوں کو اسلام سے روشناس کرا سکے۔

۳۔مخلوط تعلیم صرف دس سال کے بچوں تک کے لیے ہوگی۔ دس سال کی عمر کے بعد بچیوں کے لیے تعلیم کا الگ نظم ہوگا۔

۴۔جلد از جلد ایک مدرّس کا انتظام کیا جائے۔۱۳؎

اس دور کے دفتری ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤسّسین کے سامنے ایک واضح نصب العین تھا اور انھوں نے اس کے حصول کے لیے خود کو تیار کر رکھا تھا۔ شروع ہی سے ان کے پاس ایک واضح لائحۂ عمل ومنصوبہ تھا اور وہ اسے بروئے کار لانے کے لیے پوری کوشش کر رہے تھے۔ 

آغازِ تعمیر

ابھی تک جامعہ کا کوئی مستقل ذریعۂ آمدنی نہیں تھا، لہٰذا مالی ضروریات عوامی تعاون، چٹکی اور عطیات سے پایۂ تکمیل کو پہنچتی تھیں۔ بڑھتی ضرورت کے پیش نظر ممبرانِ جامعہ کو پہلے سے کہیں بڑی عمارت کی تعمیر کی ضرورت کا احساس ہوا۔ لہٰذا اُس وقت کے ناظم محمد اکرام پردھان نے قصبے کی مغربی مسجد میں ایک خاص میٹنگ منعقد کی۔ یہ میٹنگ ۳۱؍جولائی ۱۹۶۱ء کو بلائی گئی۔ مندرجہ ذیل اہم فیصلے اس میٹنگ میں لیے گئے:

۱۔کَرکٹ والی پرانی عمارت توڑ دی جائے اور اس کی جگہ ایک نئی عمارت تعمیر کی جائے۔

۲۔خصوصی تعاون کے لیے قصبے کی دونوں جمعہ مسجدوں میں درخواست کی جائے اور چندہ وصول کیا جائے۔

۳۔فنڈ کی فراہمی کے پیشِ نظر دیار کے مسلم گاؤوں میں وفد بھیج بھیج کر چندہ وصول کیا جائے۔ ۱۴؎

اس میٹنگ میں یہ بھی فیصلہ لیا گیا تھا کہ ناظم مالیات کے حصول کے مدنظر سنگاپور کا سفر کریں گے۔ مذکورہ فیصلے کے نتیجے میں ۱۹۶۱۔۱۹۶۲ء میں اس عمارت کی بنیاد پڑی جس کو آج سید مودودی منزل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جامعہ اسلامیہ کی پہلی تعمیر سے متعلق ماسٹر جنید صاحب کا کہنا ہے:

’’حاجی محمد اکرام صاحب کے ہاتھوں اس کا نام جامعہ اسلامیہ رکھا گیا، انھیں تحویلِ جامعہ سے کل پندرہ پیسے عطا کیے گئے تھے۔ اُس وقت مدرّسین کی تعداد پانچ تھی۔ کل تنخواہ ۱۴۶ روپے ماہوار بنتی تھی۔ موصوف مرحوم، ان کے معاون سکریٹری جامعہ جناب ڈاکٹر خلیل احمد صاحب اور ان کے ساتھیوں، اساتذہ، نیز طلبہ کی کاوشوں سے جامعہ روز افزوں ترقی کرتا چلا گیا اور جب تحویل ۱۴ روپے کو پہنچی تو ایک لمبی عمارت کی بنیاد جو چار بڑے کمروں، دو چھوٹے کمروں اور ایک ہال پر مشتمل تھی جسے اب مودودی ہاسٹل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، ڈالی گئی۔ موصوف اس کی تعمیر میں بالکل مزدوروں کے شانہ بہ شانہ پھاؤڑا چلاتے، مٹی کی ٹوکری سر پر ڈھوتے اور کبھی سلاخوں کے بنڈل کا ایک سرا خود تو دوسرا سکریٹری (ڈاکٹر خلیل) کے کندھوں پر ہوتا تھا۔ اس طرح بے سر وسامانی اور کم سرمایے کے باوجود ایک ایسی عمارت تعمیر ہوئی جو جامعہ کے لیے نہایت موزوں اور مناسب تھی۔ اس کے بعد بچوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا۔ موصوف نے بمبئی، ملیشیا وغیرہ کا جامعہ کے مالی تعاون کے لیے سفر کیا۔ اس طرح جامعہ روز بروز ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔ تین سال بعد جامعۃ الفلاح بن گیا‘‘۔۱۵؎

متعدد تعمیری کاموں اور جامعہ کو بہ حسن وخوبی چلانے کے لیے مطلوبہ مالیات کی فراہمی کے پیش نظر حاجی اکرام پردھان نے سب سے پہلے بمبئی وسنگارپور جیسے دور دراز علاقوں کا سفر کرنا شروع کیا۔

جامعۃ الفلاح کی صورت گری

جامعہ کی تاریخ میں ۱۹۶۱۔۱۹۶۲ء کا سال ایک نئے دور کے آغاز کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ ۱۹۶۱ء تک جامعہ میں درجہ ہفتم تک کی تعلیم کا نظم تھا، لیکن بہی خواہانِ جامعہ اس میں ترقی کے لیے کوشاں تھے۔ پھر حسنِ اتفاق یہ ہوا کہ مارچ ۱۹۶۱ء میں مدرسۃ الاصلاح سے کچھ اساتذہ کو جماعتِ اسلامی ہند کا رُکن ہونے کی وجہ سے نکال دیا گیا۔ اس ناخوش گوار واقعے کا سبب مولانا نظام الدین اصلاحی صاحب کے مطابق یہ تھا کہ مذکورہ علماء مولانا فراہیؒ کے خیالات ونظریات سے کہیں زیادہ جماعتِ اسلامی ہند کے افکار وآراء سے متأثر تھے۔۱۶؎

ان اخراج شدہ علماء میں سے مولانا عبد الحسیب اصلاحی صاحب اپنے آبائی وطن علاؤ الدین پٹی اپریل ۱۹۶۱ء میں پہنچے۔ ذمہ دارانِ جامعہ کی سفارش پر آپ ۲۷؍اکتوبر۱۹۶۱ء میں جامعہ اسلامیہ سے منسلک ہوگئے۔ اُس وقت کے تمام ہی ذمہ دار حضرات (اساتذہ ومنتظمین) جماعتِ اسلامی ہند سے کسی نہ کسی طرح جڑے ہوئے تھے۔

مدرسۃ الاصلاح سے علماء کے اخراج سے ضلع اعظم گڑھ کی تحریکِ اسلامی کے ارکان وکارکنان کے سامنے ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے جماعتِ اسلامی ہند ضلع اعظم گڑھ کے ارکان کو ایک ایسے ادارے کے قیام کی ضرورت کا احساس ہوا جہاں تحریکِ اسلامی اور اسلام کی بقاء کے لیے نوجوانوں کی کھیپ تیار کی جاسکے۔ ۱۸؍ تا ۲۳؍اپریل ۱۹۶۱ میں دہلی میں منعقدہ جماعتِ اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کی میٹنگ کے سامنے ضلع اعظم گڑھ میں اس طرح کے ادارے کے قیام کا مشورہ مولانا نظام الدین صاحب اصلاحی نے پیش کیا۔ آٹھ مہینے بعد ۱۵؍ تا ۱۸؍دسمبر ۱۹۶۱ء کے اپنے اجلاس میں جماعتِ اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اس طرح کے مدرسے کے قیام کا فیصلہ لیا۔

اپریل ۱۹۶۱ء کے اجلاس میں ایک عربی دار العلوم کے قیام سے متعلق ایک تجویز غور وخوض کے لیے پیش ہوئی تھی اور یہ فیصلہ لیا گیا تھا کہ مذکورہ دار العلوم کی مکمل اسکیم کی جانچ پڑتال مشرقی یوپی کی جماعتِ اسلامی کے امیرِ حلقہ اور تجویز دہندہ کریں گے اور پھر اس کی روشنی میں فیصلہ لیا جائے گا۔ چنانچہ یہ فیصلہ ہوا ہے کہ جماعتِ اسلامی ہند اعظم گڑھ میں جامعۃ الرشاد کے قیام کی اجازت نہیں دے گی۔ اگر کچھ لوگ اپنی مرضی سے ادارے کے قیام کے خواہاں ہیں تو انھیں مرکز سے منظوری حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۱۷؎

چنانچہ جماعتِ اسلامی ہند اعظم گڑھ کے درج ذیل ممبران مولانا ملک حبیب اﷲ امیرِ حلقہ جماعتِ اسلامی مشرقی یوپی، مولانا ابوبکر اصلاحی صاحب ناظم علاقہ اور مولانا نظام الدین اصلاحی صاحب نے ضلعی میٹنگ میں اعظم گڑھ کے اندر عربی/ دینی مدرسہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ۲۳؍شوال ۱۳۸۱ھ مطابق ۳۰؍مارچ ۱۹۶۲ء سے ان حضرات کی کوششوں کے طفیل اعظم گڑھ میں جامعۃ الرشاد نے کام شروع کر دیا۔ مولانا مجیب اﷲ ندوی صاحب اس کے پہلے ناظم تھے۔

مولانا عبد الحسیب صاحب اصلاحی نے جامعۃ الرشاد کے لیے وسط ۱۹۶۲ء میں رختِ سفر باندھا۔ مولانا کی جدائی سے وابستگانِ جامعہ کو ایک بار پھر ایک ایسے قابل استاذ کی ضرورت محسوس ہوئی جو مولانا کی تعلیمی کوششوں کو تسلسل ودوام عطا کر سکے۔ لہٰذا مولانا شبیر احمد اصلاحی صاحب کی خدمات مولانا کے خلا کو پُر کرنے کے لیے حاصل کی گئیں۔ ملک حبیب اﷲ ومولانا ابوبکر اصلاحی صاحبان کے مشورے سے وسط ۱۹۶۲ء میں مولانا شبیر صاحب جامعہ تشریف لائے۔ مولانا شبیر صاحب جامعہ میں اپنے تقرر کے بارے میں خود ہی فرماتے ہیں:

’’مدرسۃ الاصلاح سے اخراج کے بعد جامعۃ الفلاح میں مولانا عبد الحسیب صاحب بحیثیتِ استاذ ایک یا دو مہینے ہی رہے۔ ان دنوں ہی اعظم گڑھ میں جماعتِ اسلامی کے اعلیٰ تعلیمی ادارے کی حیثیت سے جامعۃ الرشاد کا قیام عمل میں آیا تھا۔ مدرسے کو تحریکِ اسلامی کے ممبران کا مکمل تعاون حاصل تھا اور مولانا مجیب اﷲ صاحب بھی جماعتِ اسلامی کے ممبر تھے۔ انھیں کے مستقل اصرار پر مولانا عبد الحسیب صاحب جامعۃ الرشاد منتقل ہوگئے۔ اُس وقت میں بہار کے پورنیہ ضلع میں ایک مدرسے کے اندر استاذ تھا۔ خبر ملنے پر میں نوکری کی تلاش میں اعظم گڑھ آیا۔ خوش قسمتی سے جماعتِ اسلامی کی ضلعی میٹنگ اشرف پور میں منعقد ہونے والی تھی، میں نے اس میں شرکت کی۔ جامعۃ الرشاد میں اپنی تقرری کی سفارش پر میرے استاذ مولانا ابوبکر اصلاحی صاحب ناظم ضلع نے مجھے مشورہ دیا کہ جامعۃ الرشاد کے بجائے بلریاگنج کا مدرسہ میرے لیے زیادہ موزوں ہوگا۔ پھر انھوں نے حکیم محمد ایوب وعیسیٰ صاحبان سے میرا تعارف کرایا اور میں بلریاگنج میں آگیا‘‘۔۱۸؎

اس طرح مولانا شبیر احمد صاحب ۱۹۶۲ء میں جامعہ آئے۔ یہاں پہنچ کر مولانا نے خود کو جامعہ کی تعمیر وترقی کے لیے وقف کر دیا اور دن ورات کام کرنے لگے۔ عوام، طلبہ اور مدرسے کے اساتذہ کو جوش وولولے سے سرشار کرنے کے لیے مولانا نے ایک ترانہ زیبِ قرطاس کیا اور اسے قصبہ بلریاگنج کی گلیوں میں گنگنانے لگے۔

۱۹۶۲ء تک جامعہ نئے عزم وحوصلے کے ساتھ رواں دواں تھا۔ مولانا شبیر اصلاحی صاحب نے ایک مستقل نصاب تشکیل دیا۔ ان کی محنت رنگ لائی اور ایک انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پورے علاقے کے لوگ جامعہ کی ترقی میں گہری دلچسپی لینے لگے۔ انتظامیہ نے بغرضِ حصولِ مقاصد مولانا کو ۲۵؍دسمبر ۱۹۶۲ء کو جامعہ کا صدر مدرّس مقرر کر دیا۔۱۹؎

۱۷؍ دسمبر ۱۹۶۲ء کو مجلس انتظامیہ کے سالانہ اجلاس میں ’’جامعہ اسلامیہ‘‘ سے ادارے کا نام بدل کر ’’جامعۃ الفلاح‘‘ کر دیا گیا۔ اس اجلاس کی صدارت محمد اکرام خان پردھان نے کی تھی۔ اس اجلاس میں نئے تعلیمی سیشن کو ۵؍ شوال تا ۱۵؍ شعبان کر دیا گیا اور فیصلہ ہوا کہ ۱۹۶۳ء میں درجہ ہشتم (عربی اوّل) کا آغاز ہوگا۔ مزید برآں ایک پختہ کمرہ یا کچی عمارت کی تعمیر پر بھی اتفاق ہوا تھا۔ اس بیٹھک میں ہدایت صاحب کے مکان کو بطورِ مطبخ استعمال کرنے کی سفارش کی گئی اور مدرسے کا حساب وکتاب رکھنے کے لیے ماسٹر محمد ابراہیم (مدرّس جامعہ) کو منتخب کیا گیا اور عربی اور انگریزی کے لیے دو مدرّسین کی تقرری کی بات کی گئی۔۲۰؎ 

نام کی تبدیلی کے ضمن میں شروع سے آج تک جو اختلاف پایا جاتا ہے اس کی تفصیل یہ ہے:

مولانا شبیر صاحب فرماتے ہیں:

’’سب سے پہلے میں نے مدرسے کو جامعہ اسلامیہ کا نام دیا اور جون ۱۹۶۲ء تک یہ جامعہ ہی کے نام سے موسوم رہا۔ ۲۰؍ جون ۱۹۶۲ء کو مجھے ایک موقع ملا، مجھے صدر اور ڈاکٹر خلیل صاحب کو ناظم مقرر کیا گیا۔ سوال ہمارے سامنے یہ تھا کہ فارغینِ جامعہ کس نام سے منسوب ہوں گے۔ میرے سامنے اس سلسلے میں کئی نام آئے، لیکن بالآخر میں نے ۱۹۶۳ء کی سالانہ رپورٹ ’’جامعۃ الفلاح‘‘ کے نام سے شائع کی، تبھی سے جامعہ اسلامیہ کو جامعۃ الفلاح کہا جانے لگا‘‘۔۲۱؎

دوسری طرف مفتی عبدالرؤف صاحب مبارک پوری کو قولِ مذکور سے اختلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:

’’ڈاکٹر خلیل احمد صاحب نے مجھ سے ایک بار اس ادارے کے لیے نام تجویز کرنے کو کہا جس سے طلبہ منسوب کیے جائیں۔ میں نے انھیں دو نام دیے: جامعۃ الفلاح اور فلاحِ دارین۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا: دونوں نام طویل ہیں۔ میں نے کہا: دونوں صورتوں میں فارغین اپنے نام کے بعد فلاحی لکھ سکتے ہیں۔ اس طرح مجلس انتظامیہ کی میٹنگ میں جامعۃ الفلاح کا نام شرفِ قبولیت سے نوازا گیا‘‘۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ادارے کے نام سے متعلق دونوں بیانات کے مختلف ہم نوا بھی ہیں۔ ماسٹر عبد الجلیل ومولوی عیسیٰ صاحبان پورے وثوق سے مولانا عبدالرؤف مبارک پوری کی تائید کرتے ہیں جیسا کہ مولوی عیسیٰ صاحب کا کہنا ہے کہ: 

’’جہاں تک مجھے یاد ہے نام ۱۹۶۲ء میں تبدیل ہوا جب ممبران نے اس کی ضرورت محسوس کی۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب مدرسہ ایک گہوارۂ علم کی حیثیت سے قائم کیا گیا تھا اور مجلس انتظامیہ کے سامنے پیش کردہ ناموں میں سے ایک نام ’’جامعۃ الفلاح‘‘ کا تھا۔ کچھ لوگ اس نام کو مولانا ابوبکر اصلاحی سے منسوب کرتے ہیں، لیکن میرے علم کے مطابق یہ نام مولانا مبارک پوری کا تجویز کردہ تھا‘‘۔۲۲؎

محمد عارف خاں کے مطابق یہ نام مولانا شبیر احمد اصلاحی نے تجویز کیا تھا:

’’چونکہ مدینہ منورہ میں جامعہ اسلامیہ کا قیام عمل میں آچکا تھا، لہٰذا اس ادارے کی انفرادیت کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ مولانا شبیر احمد صاحب اصلاحی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ادارے کا نام ایسا ہو جس سے فارغینِ جامعہ خود کو منسوب کر سکیں اور ان کی تشخیص ممکن ہوسکے۔ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۶۲ء کو مولانا کے مشورے پر ممبران نے اتفاق کر لیا اور مدرسے کا نام ’’جامعۃ الفلاح‘‘ رکھا گیا‘‘۔۲۳؎

ڈاکٹر خلیل احمد صاحب مسئلۂ زیرِ بحث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:

’’۱۹۶۲ء میں میٹنگ کے اندر یہ سوال اٹھا کہ ادارے کا کوئی ایسا نام ہونا چاہیے جس سے فارغین خود کو منسوب کرسکیں۔ مجھے یاد نہیں کہ موجودہ نام کی تجویز کس نے پیش کی تھی، لیکن مجھے اتنا یاد ہے کہ ہم اُس وقت قصبے کی مغربی مسجد میں اسی مسئلے پر بحث کر رہے تھے۔ اسی اثناء میں کسی نے ’’قد أفلح المؤمنون‘‘ قرآن کی آیت تلاوت فرمائی اور ’’فلاح‘‘ نام کی تجویز پیش کی‘‘۔۲۴؎

اس سلسلے میں مولانا ابوبکر اصلاحی کا بیان درج ذیل ہے:

’’ہم یعنی ڈاکٹر خلیل احمد صاحب، مولانا حبیب اﷲ صاحب اور میں بازار والی مسجد میں تھے۔ عصر کی نماز سے فراغت کے بعد ہم لوگ جس وقت صحن سے گزر رہے تھے میں نے ’’قد أفلح المؤمنون‘‘ آیت تلاوت کی اور کہا کہ مدرسے کا نام ’’جامعۃ الفلاح‘‘ ہونا چاہیے۔ مولانا حبیب اﷲ صاحب نے میری تائید کی اور اس طرح سے ادارے کا نام ’’جامعۃ الفلاح‘‘ پڑا‘‘۔۲۵؎

عربی درجات کا آغاز

جامعۃ الفلاح میں عربی درجات کے آغاز کا مسئلہ ممبران کی سالانہ میٹنگ مؤرخہ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۶۲ء کو زیرِ بحث آیا۔ تجویز منظور بھی ہوگئی اور فیصلہ ہوا کہ پکا کمرہ یا کچی عمارت اس مقصد کے لیے تعمیر کی جائے گی۔ ممبران نے تعمیرات کی خاطر فنڈ فراہمی کے لیے ملک کے طول وعرض میں مخصوص نمائندے بھیجے۔ اس طرح ۱۹۶۳ء میں عربی اوّل کا آغاز ہوا۔ ۱۹۶۳ء کے طلبہ پاس ہو کر ۱۹۶۴ء میں عربی دوم میں داخل ہوئے اور اس طرح عربی دوم کا آغاز ہوا۔ ۱۹۶۴ء ہی میں مدرسۃ الاصلاح سے اخراج شدہ اساتذہ وماہرین اپنے طلبہ کے ساتھ جامعۃ الفلاح پہنچے اور فوراً عربی سوم وعربی چہارم کی ابتدا ہوگئی۔

فضیلت کے درجات ۱۹۶۵ء و۱۹۶۶ء میں قائم ہوئے۔ ۱۹۶۷ء میں تین طلبہ پر مشتمل پہلا بیچ جامعہ سے فارغ ہوا۔ مولانا شبیر احمد صاحب عالمیت وفضیلت کے آغاز سے متعلق فرماتے ہیں:

’’میں نے مولانا عبد الحسیب اصلاحی صاحب ولائق استاذ محترم مولانا جلیل احسن ندوی کو خط لکھا کہ بلریاگنج کا مدرسہ ”جامعہ اسلامیہ“ بن گیا ہے اور اسے آپ کی خدمات مطلوب ہیں۔ میں پورنیہ بہار سے کچھ طلبہ کو اپنے ساتھ لایا اور عربی سوم کا آغاز کیا۔ جب مولانا عبد الحسیب صاحب جامعۃ الرشاد سے کچھ طلبہ کے ساتھ جامعہ تشریف لائے تو ہم نے عربی چہارم شروع کیا۔ مزید برآں مولانا جلیل احسن ندویؒ بھی اپنے طلبہ کے ساتھ آئے اور فضیلت کا آغاز ہوا‘‘۔۲۶؎

جامعۃ الفلاح، بلریاگنج کے قیام سے قبل کے اغراض ومقاصد کا بنیادی اور اہم مقصد بچوں کو عقائدِ اسلام کا بنیادی تصورِ علم فراہم کرنا تھا، تاکہ وہ دنیوی تعلیم کی تحصیل سے پہلے قرآن کی قرأت وتلاوت کرسکیں۔ جامعۃ الفلاح نے اس مقصد کو آگے بڑھاتے ہوئے طے کیا کہ ایسے افراد تیار کیے جائیں جو قرآن وسنت کا گہرا علم اور دینی بصیرت رکھتے ہوں، نیز جن کی نظر وقت کے اہم مسائل پر ہو اور جو غیر اسلامی افکار ونظریات سے بخوبی واقف ہوں اور اسلامی اخلاق وکردار کے حامل ہوں۔

۳؍ جولائی ۱۹۶۱ء کو قصبے کی پچھّم والی مسجد میں منعقدہ مجلس تعلیمی نے تعلیم کی ترقی کے حوالے سے فیصلہ کیا کہ جامعہ کے نصاب میں صرف وہی کتابیں شامل کی جائیں گی جو اسلام کو سمجھنے میں طلبہ کے لیے معاون وممد ہوں۔۲۷؎

کلیۃالبنات 

اُس وقت مسلم بچیوں کی تعلیم پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی تھی، کیونکہ مسلمان جدید لادینی اداروں کو تہذیب وعقیدے کا مذبح خانہ سمجھ کر بچیوں کو جاہل ہی رکھنا زیادہ بہتر گردانتے تھے۔ جامعۃ الفلاح نے اس خلا کو پُر کیا اور تعلیمِ نسواں کا عَلَم بلند کیا۔ جامعہ میں تعلیمِ نسواں کا نظم بالکل ابتدا ہی سے موجود تھا، لیکن ان کی تعلیم صرف درجہ چہارم تک ہوتی تھی۔ ۲۸؍ مئی ۱۹۶۱ء کو انتظامیہ کی میٹنگ میں تعلیمِ نسواں کے لیے علاحدہ اعلیٰ تعلیم گاہ کی تجویز پیش کی گئی۔ بعدازاں ۲۱؍ نومبر ۱۹۶۵ء کو انتظامیہ کے اجلاس میں کلیۃ البنات کی تجویز منظور کر لی گئی اور اسی سال گرلس کالج کے لیے قصبے کی پچھّم والی مسجد کے پاس ایک عمارت خریدی گئی۔

درجہ پنجم کے ذریعے گرلس کالج نے ۱۹۶۶ء میں تعلیمی سلسلہ شروع کر دیا۔ جون پور سے ایک معلّمہ کو لایا گیا جو مذکورہ عمارت میں سکونت پذیر تھیں۔ ان کی آمد کے دوسرے دن پانچ سات بچیوں پر مشتمل درجہ پنجم کا آغاز ہوگیا۔ ۱۹۶۹ء میں درجہ سوم سے درجہ ہفتم تک کی تعلیم کا نظم ہوگیا۔ درجہ اطفال سے درجہ سوم تک مخلوط تعلیم کا نظم تھا۔ طالبات کا نصاب طلبہ سے کچھ مختلف تھا۔ کچھ مخصوص مضامین مثلاً تکنیکی، پیشہ ورانہ، گھریلو سائنس اور سلائی وغیرہ کا ان کے نصاب میں اضافہ کیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ چار سے پانچ بسوا زمین خریدی گئی اور ۷۹۔۱۹۷۸ء کے دوران ایک عمارت کی تعمیر ہوگئی۔ ذمہ داروں کی کوششوں سے عالمہ اوّل ۱۹۷۸ء، عالمہ دوم ۱۹۷۹ء، عالمہ سوم ۱۹۸۰ء، عالمہ چہارم ۱۹۸۱ء، فاضلہ اولیٰ ۱۹۸۲ء، فاضلہ اخری ۱۹۸۳ء میں شروع ہوئے۔ ۱۹۸۴ء میں فاضلات کا پہلا بیچ فارغ ہوا اور انھیں سندِ فضیلت عطا کی گئی۔ 

دارالاقامہ اور مطبخ

۱۹۶۲ء میں مولانا شبیر احمد اصلاحی صاحب کی کچھ طلبہ کے ساتھ جامعہ تشریف آوری سے فلاح میں دار الاقامہ کی ابتدا ہوتی ہے۔ ان بیرونی طلبہ کے علاوہ کچھ مقامی طلبہ بھی ہاسٹل میں رہا کرتے تھے۔ مقامی طلبہ کو مطبخ سے استفادے کی اجازت نہیں تھی۔ موجودہ مودودی ہاسٹل جو ایک ہال، چار کمروں اور دو سائڈ روم پر مشتمل ہے اور جس کی تعمیر ۶۲۔۱۹۶۱ء میں ہوئی تھی، یہی دار التعلیم اور دار الاقامہ دونوں کے لیے کفایت کرتا تھا۔ شروع میں بیرونی طلبہ کے لیے کھانے کا بندوبست قصبہ بلریاگنج کے اصحابِ خیر کیا کرتے تھے۔

۱۷؍ دسمبر ۱۹۶۲ء کے اپنے سالانہ اجلاس میں انتظامیہ نے اگلے تعلیمی سال کے لیے ایک باقاعدہ مطبخ کے قیام کی منظوری دی اور ایک باورچی کا تقرر عمل میں آیا۔ ۱۹۶۳ء میں جب عالمیت کا آغاز ہوا تھا، مطبخ نے بھی کام کرنا شروع کر دیا۔ ۱۹۶۵ء میں اینٹ وکھپریل کی پہلی عمارت مطبخ کے لیے تعمیر کی گئی، اس کی بنیاد ۱۹۶۴ء میں ڈالی گئی تھی۔

جماعتِ اسلامی سے تعلق

جماعتِ اسلامی ہند سے جامعۃ الفلاح کا رشتہ وتعلق ابتدا ہی سے رہا ہے۔ عام رائے کے مطابق سب سے پہلے مولوی جنید احمد (اشرف پور) نے قصبہ بلریاگنج کو اپنی مسلسل ومخلص کوششوں کے ذریعہ جماعتِ اسلامی سے مربوط کیا۔ قصبہ بلریاگنج سے جماعتِ اسلامی کے سب سے پہلے رکن حکیم محمد ایوب صاحب ہیں۔ ۱۹۵۶ء سے جامعہ کا جو دوسرا دور شروع ہوا اس کے روحِ رواں اور میرِ کارواں حکیم صاحب ہی تھے۔ حکیم جی اور ان کے شریکِ کار ڈاکٹر خلیل احمد صاحب، مولوی محمد عیسیٰ صاحب ودیگر حضرات سکریٹری جماعت ملک حبیب اﷲ قاسمی صاحب وناظم ضلع مولانا ابوبکر اصلاحی صاحب سے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر جامعۃ الفلاح کے امور ومسائل پر تبادلۂ خیالات کرتے اور پھر فیصلے کرتے۔ بعد میں ۲۵؍ دسمبر ۱۹۶۲ء کو مولانا ابوبکر اصلاحی صاحب مجلس تعلیمی کے رکن منتخب ہوئے۔

دوسری جانب مولانا نظام الدین اصلاحی، ملک حبیب اﷲ قاسمی اور مولانا ابوبکر اصلاحی نے مولانا مجیب اﷲ صاحب سے مل کر اعظم گڑھ میں مارچ ۱۹۶۲ء میں جامعۃ الرشاد نامی عربی ادارہ قائم کیا۔ کچھ ہی دنوں کے بعد مولانا مجیب اﷲ صاحب وملک حبیب اﷲ قاسمی صاحب کے درمیان نزاع پیدا ہوگیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ملک حبیب اﷲ صاحب اور ان کے ہم نوا جامعۃ الرشاد سے مایوس ہوگئے اور جامعۃ الفلاح کا رُخ کیا۔ ۱۹۶۴ء میں ملک حبیب اﷲ ومولانا ابوبکر اصلاحی جامعۃ الفلاح کی انتظامیہ کے بنیادی ممبر منتخب کیے گئے۔

اس طرح جامعۃ الفلاح جماعتِ اسلامی ہند کے براہِ راست ربط میں آگیا اور جماعتِ اسلامی ہند کے اراکین نے رضاکارانہ طورپر جامعہ کی تعمیر وترقی میں بھرپور حصہ لینا شروع کردیا۔

یہ بات واضح رہے کہ جماعتِ اسلامی ہند سے جامعہ کا کوئی دستوری تعلق نہیں ہے، یہ ایک خود مختار وآزاد ادارہ ہے۔ جامعہ ہمیشہ سے ہمہ گیر وآفاقی کردار کا حامل رہا ہے۔ یہ کسی شخصیت، گروہ، فکر یا خاص مسلک تک محدود نہیں ہے، بلکہ وسعتِ قلب ونظر وفکر کا مظہرِ اتم ہے۔

۲- جامعۃ الفلاح کی تشکیل کے بنیادی عناصر

تشکیلِ جامعۃ الفلاح کے تاریخی تناظر میں اس مسئلے کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے کہ ۱۹۶۲ء میں سینکڑوں مدارس کی موجودگی میں جامعۃ الفلاح کی ضرورت پیش کیوں آئی۔ کیا مکتب اسلامیہ اور بعد میں ’’جامعہ اسلامیہ‘‘ سے وابستہ اساتذہ ومنتظمین کی معاشی ضرورت کی تکمیل کا مسئلہ پیش نظر تھا یا اخراج شدہ اصلاحی اساتذہ کو ضم کرنا مقصود تھا؟ یا سوچی سمجھی کوئی تعلیمی اسکیم تھی جس کے پورے ہندوستان میں نفاذ کے لیے جامعۃ الفلاح کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سوال کا جواب ساکنانِ بلریاگنج کے علاوہ فارغینِ جامعہ کے لیے بھی طمانینت کا باعث ہوگا۔ 

جہاں تک جامعہ اسلامیہ اور اس سے قبل مکتب اسلامیہ کو خود کفیل معاشی ذریعہ کے طور پر استعمال کرنے کا مسئلہ ہے تو تاریخی طور پر ثابت ہے کہ اس زمانے تک پرائیویٹ اور موڈرن اسکول بھی کمرشیل نہیں ہو سکے تھے، مکتب ومدرسے کا شمار کہاں؟ دوسری طرف جن بزرگوں نے بلریاگنج میں تعلیم کی نرسری اُگائی تھی وہ بالعموم صاحبِ جائداد اور رؤساء کی قبیل سے تعلق رکھتے تھے۔ مثلاً منشی لعل محمد خان اور علی احمد خاں جنھوں نے اس ادارے کی تخم ریزی ۱۹۱۴ء میں کی تھی، یہ حضرات بلریاگنج کے صاحبِ حیثیت اور زمین دار گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ۱۹۵۹ء میں جب مکتب اسلامیہ نے جامعہ اسلامیہ کا قالب اختیار کیا تو اس کے کار پردازوں نے مکتب اسلامیہ اور جامعہ اسلامیہ کو زمینیں وقف کیں، اپنے گھروں کو بطورِ مکتب سالوں استعمال کیا، تعمیر کے لیے اینٹ اور بالو دیا، پھاؤڑے اور کدال خود چلائے اور جامعۃ الفلاح کے لیے چندہ وصول کرنے کے لیے سنگاپور اور دیگر ممالک تک سفر کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ان حضرات میں سے کسی نے جامعہ اسلامیہ سے مشاہرہ وصول نہیں کیا۔ جن اساتذہ نے اپنی زندگیاں وقف کر دیں انھوں نے نہایت قلیل تنخواہ  ۲۸؎  پر دین کی خدمت کے جذبے سے سکون وطمانیتِ قلب کے ساتھ اس ادارے کی خدمت کی۔ 

دوسری طرف مدرسۃ الاصلاح سے جن اساتذہ کو مستعفی قرار دیا گیا یا جو آکر اس علمی قافلے سے منسلک ہوگئے ان میں مولانا ابوبکر اصلاحی (۱۹۲۲-۱۹۹۸ء)، مولانا شبیر احمد اصلاحی (۱۹۲۵-۲۰۱۰ء)، مولانا جلیل احسن ندوی (۱۹۱۳-۱۹۸۱ء)، مولانا صغیر احسن اصلاحی (۱۹۲۹-۲۰۰۰ء)، مولانا شہباز احمد اصلاحی (۱۹۲۸-۲۰۰۲ء)، مولانا عبد الحسیب اصلاحی (۱۹۲۸-۲۰۲۰ء)، مولانا نظام الدین اصلاحی (۱۹۲۹-۲۰۲۲ء) وغیرہ حقیقت میں تصورِ جامعۃ الفلاح کے اصل معمار ہیں، جن کی علمی تربیت ہندوستان کے دو تعلیمی دبستانوں ندوۃ العلماء لکھنؤ یا مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں ہوئی تھی اور تیسری طرف قرآنی تصورِ دین کے عملی انطباق کا سلیقہ ان حضرات نے بانیِ تحریکِ اسلامی اور عظیم مفکرِ اسلام مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳-۱۹۷۹ء) کے افکارِ عالیہ سے سیکھا تھا۔ یہ بات کسی طرح قرینِ قیاس نہیں ہوسکتی کہ ان حضرات کی معاشی ضرورت کی تکمیل جامعۃ الفلاح کے قیام کا سبب بنی ہو۔ یہ حضرات نصابِ تعلیم کی تشکیل اور اس پر نقد ونظر کے اس مقام پر فائز تھے جس مقام تک ندوۃ العلماء اور مدرسۃ الاصلاح کے نصاب طلبہ وفارغین کو پہنچانا چاہتے تھے۔ دوسری طرف پورے ہندوستان میں علامہ شبلی نعمانی (۱۸۵۷-۱۹۱۴ء)، مولانا حمید الدین فراہی (۱۸۶۳-۱۹۳۰ء) اور سید ابو الاعلیٰ مودودی کی خدمات کے طفیل بہتر نتائج محسوس کیے جا رہے تھے۔ بھلا ان صیقل شدہ نگینوں کو کون گلے لگانا نہیں چاہتا ہوگا۔ اعظم گڑھ کے مختلف قصبات سے تعلق رکھنے والے ابتدائی اساتذہ نے صوبہ بہار کے مختلف خطوں (پورنیہ اور سیوان) کے دو ماہرینِ علم وفضل اور تقویٰ وتزکیہ کے اعلیٰ مقام پر فائز فضلاء کو اس تعلیمی کارواں کا حصہ بنا لیا۔ مولانا شبیر احمد اصلاحی کی پُرشکوہ وباجبروت شخصیت اور مولانا شہباز اصلاحی کی عبقری وصوفی صافی طبیعت نے جامعۃ الفلاح کو اپنے دیگر رفقاے کار کے ساتھ شہرت کے مقامِ بلند پر پہنچا دیا۔ 

یہاں اس شبہے کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ جامعۃ الفلاح مدرسۃ الاصلاح کا عملی مثنیٰ اور توأم ہے۔۲۹؎  ہندوستان کے مدارس کے وسیع تناظر میں مکتب دیوبند، بریلوی مکتب اور مکتب اہلِ حدیث نے اپنی تمام شاخوں اور ملحق اداروں کو اپنا عملی مثنیٰ، توأم اور جانشین قرار دیا ہے۔ بدقسمتی سے مذکورہ دونوں اداروں (اصلاح اور فلاح) میں فکر کی بے پناہ یکسانیت کے باوجود قرب واتصال کی فضا کم پائی گئی ہے اور خود مدرسۃ الاصلاح نے دستوری طور پر کبھی اسے اپنا مثنیٰ قرار نہیں دیا ہے۔ عناصر کی بحث میں اس مسئلے پر مزید روشنی ڈالی جائے گی۔

جامعۃ الفلاح کی تشکیل کے عناصر

جامعۃ الفلاح کے قیام کے اسباب ومحرکات پر سنجیدہ بحث کے ذریعے اس عقدے کی گرہ کھل جاتی ہے کہ کسی عارضی مقصد کا حصول اس کا مطمحِ نظر نہ تھا، یا جلبِ منفعت کی کوئی دنیاوی اسکیم اس کے سامنے نہیں تھی۔ ۱۹۶۱ء تک کے تاریخی ریکارڈ کے ذریعے جامعۃ الفلاح کے قیام کے عناصر کی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے:

۱۔ جماعتِ اسلامی ہند کی دعوت اور اس کا نظریۂ تعلیم

بیسویں صدی کے نصف تک دینِ حق، اقامتِ دین اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر وغیرہ اصطلاحات نے ہندوستان کے ہر سنجیدہ مسلمان کو تصورِ دین کا حقیقی ادراک کرا دیا تھا۔ اس صدی میں غیر اسلامی افکار ونظریات کی قلبِ ماہیت اور اسلامی انقلاب کو ممکن الوقوع بنانے کے لیے بانیِ تحریک سید ابو الاعلیٰ مودودی نے تعلیم کو سب سے اہم ہتھیار قرار دیا۔ چنانچہ تعلیمات اور خطبہ تقسیم اسناد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نیز بعض دیگر تحریروں نے ارکان ومتوسلینِ جماعتِ اسلامی کو جدید نصاب کی تدوین اور اس کے مطابق کتابوں کی تیاری کے لیے بے چین کر دیا، جس کا پہلا عکس رام پور کی ثانوی درس گاہ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ خود بانیِ تحریک کا تقسیمِ ملک سے قبل شمالی ہندوستان کے مختلف علاقوں/ اداروں کے دوروں کے وقت عظیم علمی گہوارے مدرسۃ الاصلاح میں ان کی آمد (۱۹۴۲ء) نے ایک نئی صبح کی نوید سنائی۔ سرائے میر کے بعد غالباً بلریاگنج وہ دوسرا مقام ہے جہاں افکارِ مودودی نے اپنے متوالوں کو جامعۃ الفلاح کا خواب دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ مدرسۃ الاصلاح میں سید ابو الاعلیٰ مودودی کے دعوتی گشت سے قبل ترجمان القرآن کے ذریعے جو تخم ریزی ہو رہی تھی، بلریاگنج واطراف میں سید مودودی کی آمد نے جماعت کی دعوت کو معتبر کر دیا۔ جامعۃ الفلاح کے فارغ اور تاریخِ جامعہ سے دلچسپی رکھنے والے مولانا مقبول احمد فلاحی نے لکھا ہے کہ ’’اشرف پور کے مولوی جنید احمد صاحب (رکنِ جماعت) نے بلریاگنج کو نشانہ بنایا اور مسلسل کوششوں کے نتیجے میں بلریاگنج میں جماعت کے کارکنان وہمدردوں کی ایک ٹیم (۱۹۴۵ء میں) وجود میں آئی۔ رفقاے جماعت تحریکی فکر کے فروغ اور بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے درس گاہ کے قیام کے آرزو مند ہوتے ہیں…..۔ اس پس منظر میں چوں کہ درس گاہیں ناپید تھیں اس لیے بجا طور پر احبابِ جماعت کے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ تعلیم کو صحیح خطوط پر رواج دینا چاہیے، چنانچہ اُس وقت کے مشرقی یوپی کے امیرِ حلقہ مولانا ملک حبیب اﷲ صاحب، مولانا ابو بکر اصلاحی صاحب، حکیم محمد ایوب صاحب، ڈاکٹر خلیل احمد صاحب اور دیگر احبابِ جماعت نے ایک معیاری درس گاہ کے قیام کا منصوبہ بنایا اور اہلِ بستی کو ساتھ لے کر اس منصوبے کی تکمیل کی جدوجہد کی۔ بالآخر اﷲ تعالیٰ نے ان حضرات کی مساعی کو شرفِ قبولیت بخشی اور خالص تحریکی طرز کا ادارہ جامعۃ الفلاح کے نام سے معرضِ وجود میں آگیا‘‘۔۳۰؎

مولانا مودودی کے تعلیمی نظریات اسلامی تصورِ تعلیم کے ترجمان تھے۔ وہ تحریر کرتے ہیں:

’’دنیا کی امامت وقیادت کی باگیں علماے اسلام کے ہاتھ میں آجائیں، یہ نتیجہ اگر حاصل کرنا ہے تو آپ کو مکمل انقلابی اصلاحات کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ اس سارے نظامِ تعلیم کو ادھیڑ کر ازسرنو ایک دوسرا نظامِ تعلیم بنانا پڑے گا‘‘۔۳۱؎  

ایک دوسری جگہ دینی تعلیم کا مقصد اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں: 

’’ایسے علماء تیار کرنا جو دورِ جدید میں ٹھیک ٹھیک دینِ حق کے مطابق دنیا کی رہنمائی کے لائق ہوں‘‘۔۳۲؎

درج بالا تجزیے کی روشنی میں بجا طور پر یہ تھیسس پیش کی جا سکتی ہے کہ تشکیلِ جامعۃ الفلاح کے عناصر میں جماعتِ اسلامی ہند کے تعلیمی تصورات، مقاصد اور ترجیحات کا مقام سب سے بلند ہے۔ انہی تصورات کی پشتیبانی جامعہ کی مجالسِ شوریٰ، مجالسِ انتظامیہ اور مجالسِ تعلیمی آج بھی کر رہی ہیں۔

۲۔ علامہ شبلی نعمانی  ؒاور مولانا حمید الدین فراہیؒ کے تعلیمی افکار سے استفادہ

جامعۃ الفلاح کی تشکیل میں دوسرا فکری عنصر درسِ نظامی کے ناقد علامہ شبلی اور ترجمان القرآن حمید الدین فراہی کے تعلیمی نظریات وعملی تجربات میں تلاش کیا جانا چاہیے۔ ۱۹۱۳ء تک شبلی ندوہ کی تعلیمی تحریک سے مایوس ہو کر اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے کے لیے جب دار المصنّفین کے تحقیقی نصاب کے لیے خاکہ مرتّب کر رہے تھے اُس زمانے میں علامہ حمید الدین فراہی سے خونی رشتے کے ماسوا دونوں اکابرین کے درمیان تعلیمی وفکری ہم آہنگی نے مدرسۃ الاصلاح کے نصاب کو اصحابِ علم ودانش کی نگاہ میں وقیع بنا دیا تھا۔ 

علامہ شبلی نے ندوہ میں مروج نصابِ تعلیم کی اصلاح کی، اس میں علومِ دینیہ کا حصہ بہت کم تھا، علومِ آلیہ (صرف ونحو اور فلسفہ ومنطق) کی کتابوں کا اوسط بہت زیادہ تھا، عربی ادب سے زیادہ صرف ونحو اور معانی وبیان پر انحصار تھا، انگریزی زبان کی کوئی کتاب داخلِ نصاب نہیں تھی۔ علامہ شبلی نے ہندی اور سنسکرت کے درجات کا آغاز کیا، تاکہ غیر مسلموں میں دعوت وتبلیغ کا کام انجام دیا جاسکے۔ انھوں نے غیر مسلموں کے درمیان دینی کام کرنے کے لیے ماہرین کی تیاری کے لیے خدام الدین کے نام سے طلبہ کا ایک گروہ قائم کیا۔۳۳؎  علامہ شبلی کے تجویز کردہ نصابِ تعلیم کو وہ پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی جس کی وہ تمنا کر رہے تھے۔ چنانچہ ندوہ چھوڑ کر دار المصنّفین جانے کا یہی اصل سبب بنا۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے نظریۂ تعلیم پر مبنی تحریروں کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کے لیے ایک مخصوص نصابِ تعلیم کے وہ خود بھی واضع تھے۔ ان کے تجویز کردہ نصاب کی تفصیلات میں علامہ شبلی کی بے چین طبیعت کا عکس نظر آتا ہے۔ دوسری طرف مدرسۃ الاصلاح سرائے میر کے بلریاگنج سے قرب واتصال اور اخذ واستفادے نے فطری طور پر ایک تائیدی سبب کا کام کیا جس نے تشکیلِ فلاح کے ابتدائی خاکوں میں رنگ بھرا ہوگا۔ اس قیاس کی تائید اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ مارچ ۱۹۶۱ء میں بعض اصلاحی اساتذہ کی خدمات سے مدرسۃ الاصلاح نے معذرت کرلی جنھوں نے مدرسۃ الاصلاح کے طرز ومنہاجِ تعلیم پر حوصلہ مند اضافوں اور توسیعِ جہات کے ساتھ ایک خود کفیل نصابِ تعلیم وضع کرلیا۔۳۴؎  چنانچہ یہیں سے جامعۃ الفلاح کی ضرورت اور اس کی معنویت ثابت ہوتی ہے۔ ندوۃ العلماء نے فنی تعلیم کی بات کی، تبلیغ واشاعتِ دین پر زور دیا، لیکن یہ دونوں چیزیں اس کا اختصاص نہ بن سکیں۔ دوسری طرف مدرسۃ الاصلاح کی حدیث وفقہ کی فنی تعلیم سے دوری اور حفاظت واشاعتِ اسلام کے لیے دعاۃ کی تیاری کی طرف سرد مہری نے خطۂ اعظم گڑھ کے قصبہ بلریاگنج میں جامعۃ الفلاح کی شکل میں ایک معتدل نصابِ تعلیم کی تدوین وتنفیذ کے لیے راہ ہموار کردی۔۳۵؎

ندوۃ العلماء اور مدرسۃ الاصلاح کے تعلیمی نصابات سے معمارانِ جامعہ اور واضعینِ نصابِ جامعہ نے نقد واحتساب کے باوصف خوب استفادہ کیا ہے۔ ان کے محاسن کو قبول کیا، ان کتابوں کو شامل کیا تھا جو علومِ اسلامیہ کے زیر عنوان ان دونوں مدارس کے نصابات کا حصہ رہ چکی تھیں اور نئے عہد کی ضروریات کی رعایت کرتے ہوئے بے شمار اضافوں کے ساتھ ایک جامع اور مفید نصابِ تعلیم وضع کرلیا۔

۳۔ بلریاگنج کی زرخیزی، مہمان نوازی اور شورائی مزاج

تیسرا فکری عنصر خود قصبہ بلریاگنج کی مٹی سے نمودار ہوا اور یہ عنصر مسلسل تجربات سے گزرتے ہوئے ۱۹۶۲ء میں پختگی کی عمر کو پہنچا۔ مکتب اسلامیہ، مدرسہ اسلامیہ دراصل جامعہ اسلامیہ اور جامعۃ الفلاح کے اساسی تصورِ تعلیم کی تخم ریزی کرنے والی وہ مبارک منزلیں ہیں جن میں اہالیانِ بلریاگنج کے تمام مسلمانوں کی شرکت رہی ہے۔ ڈاکٹر خلیل احمد صاحب کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فراغت کے بعد جامعۃ الفلاح کے لیے یکسوئی، مولوی محمد عیسیٰ قاسمی کا دار العلوم دیوبند سے دستارِ فضیلت کے بعد جامعۃ الفلاح کے لیے خدمات پیش کرنا، وہ پس منظر ہے جس نے علی گڑھ ودیوبند کے تعلیمی استفادے کو جامعۃ الفلاح کی ترقی کے لیے مہمیز کیا۔ ان دونوں تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت الاستاذ مولانا شبیر احمد اصلاحیؒ نے ۱۹۶۲ء میں جامعۃ الفلاح کے لیے ایک جامع وخود کفیل نصاب مرتّب کرکے اس کے اساسی رجحانات کے اسرارو رموز کو کھول دیا۔

بلریاگنج میں ملّی ضرورت کا ادراک کرنے والے اور تعلیم کے ہتھیار کے ذریعے وہاں کی علمی شہرت کو بلندیوں تک پہنچانے والے احباب کی ایک لمبی فہرست ہے جس کا تذکرہ اس سے پہلے ہوچکا ہے۔ ان کے خلوص، ایثار وانفاق اور جذبۂ خدمتِ خلق میں وہ تاثیر تھی جس نے مختلف علاقوں کے خدامِ دین کو اس علمی کارواں کا حصہ بننے پر مجبور کردیا۔ یہ وہ خدام تھے اور ہیں جو علاقہ ومشرب کے اختلاف کے باوصف جامعہ کے اساسی رجحانات کے نگہبان ثابت ہوئے۔

مکتب اسلامیہ سے جامعۃ الفلاح بننے تک طلبہ/ طالبات اور اساتذہ کی ایک قابلِ لحاظ تعداد خود قصبہ بلریاگنج کی رہی ہے۔ دوسری طرف اطرافِ بلریاگنج کی بے شمار بستیاں جہاں آج جامعہ کے ملحق مدارس جاری وساری ہیں، کے طلبہ واساتذہ بھی اس تعلیمی کارواں میں برابر کے شریک ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ جس زمانے میں اس مشن کی پہلی نرسری تیار ہو رہی تھی اور جب یہ تناور درخت کی عمر کو پہنچا کسی دور میں اسلامی نظریۂ تعلیم کی مخالفت نہیں ہوئی۔ مسلکی اختلافات نے اس جمعیت کو مس نہیں کیا۔ چنانچہ پورے اعتماد کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جامعۃ الفلاح کے تخیل کے ابتدائی دور سے بلوغ کی عمر کو پہنچنے تک شورائی مزاج کی برکت ہمیشہ اس ادارے کو حاصل رہی ہے اور ان عناصر نے جامعۃ الفلاح کو تعلیمی، دینی اور تحریکی ضرورت کی تکمیل کا سنٹر بنا دیا ہے۔

٭٭٭

تعلیقات وحواشی

۱۔ بلریاگنج صوبہ اترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پرگنہ وتحصیل سگڑی میں ایک قصبہ ہے، جو شہر اعظم گڑھ سے ۱۷؍ کلو میٹر کی مسافت پر شمال میں واقع ہے۔ جین پور سے مہراج گنج اور اعظم گڑھ سے رونا پار جانے والی سڑکیں اس قصبے میں آکر مل جاتی ہیں۔ ۱۸۸۱ء کی مردم شماری کے مطابق اس آبادی میں دو ہزار سولہ افراد رہائش پذیر تھے۔ ۲۰۰۱ء کی مردم شماری رپورٹ گیارہ ہزار آٹھ سو اکیانوے انسانوں کی تعداد بتاتی ہے۔ بلریاگنج کی تاریخ میں افسانوی رنگ کی بڑی آمیزش رہی ہے۔ مشہور ہے کہ اکبرِ اعظم کے دورِ حکومت میں مینانگر میں ایک طاقت ور چھتری حکمراں تھا۔ اس کے چھوٹے بھائی نے اسلام قبول کر لیا اور گھر سے نکال دیا گیا۔ بڑے بھائی نے حکومت اور جائداد میں بھی اسے وارث بنانے سے منع کر دیا۔ تب چھوٹا بھائی گمبھیر سنگھ مغل دار السلطنت آگرہ شہنشاہ جہاں گیر کے دربار میں فریاد لے کر پہنچا۔ اس کی شنوائی ہوئی۔ شہنشاہ نے اپنے ایک گورنر کو ریاست کی فوج کے ساتھ یلغار کرنے کا حکم دیا۔ شاہی فرمان کے بموجب دو فیلڈ مارشل اپنی دو ہزار سپاہ لے کر مینانگر کے شمال میں برسرپیکار ہوئے۔ یہ دونوں کمانڈر خیر الدین خاں اور محی الدین خاں سگے بھائی تھے۔ انھوں نے چھتری حکمراں کو شکست دی اور گمبھیر سنگھ کو اس کا حق دلایا۔ راجا گمبھیر سنگھ نے بعد میں ان دونوں کو اپنی فوج میں شامل کرلیا۔ تنخواہ کے علاوہ ان میں سے ہر بھائی کو بارہ گاؤں کی جاگیر بھی عطا کی۔ ان دونوں نے اپنی مرضی سے رہائشی علاقے کا انتخاب کیا اور خیر الدین پور اور محی الدین پور دو نئے گاؤں بسائے۔ کچھ سالوں کے بعد آس پاس کے دو گاؤں نینی جور اور بھگت پور میں تصادم ہوگیا۔ بھگت پور کے چھتریوں نے خیر الدین پور کے باشندوں سے اعانت طلب کی، تین چار پٹھان برادران نے اس پر لبیک کہا، مگر اس شرط کے ساتھ کہ فتح کی صورت میں خیر الدین پور کے پٹھانوں کو زمین کا حصہ بطورِ انعام ملے گا۔ جب بھگت پور نے میدان مار لیا تو پٹھانوں کے ساتھ بدعہدی کی۔ غصے میں آکر انھوں نے بزور اُن زمینوں پر قبضہ کرلیا۔ اس علاقے کا نام اس طرح (Bariyaiyah Ganj) ’’برریاگنج‘‘ پڑ گیا۔ مقامی بھوجپوری زبان میں اس کا مطلب ہے ’’زبردستی قبضہ کیا ہوا علاقہ‘‘۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام گردشِ زمانہ سے تبدیل ہو کر ’’بلریاگنج‘‘ ہوگیا۔ دیکھیے حوالہ:

District Gazetteers of the united provinces of Agra and Oudh, Vol.33 (Azamgarh) 1911, p:33, District Gazetteers India (U.P.) Vol.44, P:274, The Encyclopedia District Gazetters of India, Vol.6, P:457.

نیز بلریاگنج کا بابو خاندان: شجرۂ نسب اور مختصر تاریخ، مرتّب بابو فرید خاں اور بابو عبد الحئی خاں، ادارہ مظہر دین، بلریاگنج، اعظم گڑھ، ۱۹۸۴ء

۲۔ مخطوطہ محمد عارف خاں، بعنوان اسلامی مدرسہ سے جامعۃ الفلاح تک، مؤرخہ ۲۷؍نومبر۱۹۸۲ء، ورق:۵

۳۔ جنرل رجسٹر اساتذہ جامعۃ الفلاح ۱۹۴۴ء تا ۱۹۶۶ء، نیز دیکھیے جامعۃ الفلاح کے قیام کے اسباب ومحرکات، مقبول احمد فلاحی، ماہنامہ حیات نو، جلد: ۱۷، شمارہ: ۱۰، اکتوبر ۲۰۰۱ء، ص:۳۷

۴۔ ڈاکٹر غلام نبی تیلی نے یہ اطلاع حکیم جلال الدین ہنگائی پوری سے ملاقات کے بعد اپنے تحقیقی مقالہ برائے پی۔ایچ۔ڈی میں فراہم کی ہے۔ دیکھیے ان کا مقالہ : Jamiatula Falah in its Historical and Educational Perspective: Gulam Nabi Teli, AMU, 2003, ص:۱۱۹، حاشیہ نمبر:۸، ۱۱

۵۔ محمد عارف خاں نے حکومت کے اس انسپکٹر آف ایجوکیشن کا نام عبد المبین تحریر کیا ہے۔ نیز دیکھیے مقبول احمد فلاحی کا مقالہ، محولہ بالا، ص:۳۷

۶۔ یہ خط مرحوم مولوی محمد عیسیٰ صاحب کا مملوکہ ہے، اس کی ایک نقل اس تاریخ کے مرتّب کے پاس محفوظ ہے۔ مولانا مقبول فلاحی نے بھی اپنے مذکورہ مقالے میں اس خط کا ذکر کیا ہے۔

۷۔ ڈاکٹر محمد عارف کا مخطوطہ۔ محولہ بالا، ورق:۵

۸۔ ڈاکٹر غلام نبی تیلی نے ماسٹر عبد الجلیل صاحب سے اپنے انٹرویو مؤرخہ ۵؍ مارچ ۲۰۰۲ء کا ذکر کیا ہے۔ مولانا عبد الرؤف صاحب کی آراء کو غلام نبی نے ملاقات کے بعد درج کیا ہے۔

۹۔ ماسٹر جنید احمد، یہ جامعہ انہیں کا خواب ہے، ماہنامہ حیات نو، جلد: ۲، شمارہ: ۳، مارچ ۱۹۸۷ء، ص: ۵۵، ۵۶، جامعہ کے جنرل رجسٹر کے ذریعے ان پانچ اساتذہ کے نام ہیں: منشی محمد ادریس، مولوی محمد عیسیٰ، شیخ محمد ادریس، رحمت اﷲ اور جنید احمد۔ ۱۴۶ روپے پانچ اساتذہ کی تنخواہ کا کل مجموعہ ہے۔ انفرادی طور پر انھیں ۲۸، ۳۰، ۲۶ روپے الگ الگ بطورِ تنخواہ ملتے تھے۔

۱۰۔ ڈاکٹر غلام نبی تیلی کا مولوی محمد عیسیٰ سے ۲۱؍ جنوری ۲۰۰۲ء میں ایک انٹرویو۔ دیکھیے ان کا پی ایچ ڈی مقالہ، ص:۱۲۱، حاشیہ نمبر:۲۶

۱۱۔ محمد عارف خاں کا مکتوبہ مخطوطہ۔ حوالہ بالا، ورق:۵

۱۲۔ مجلس انتظامیہ، آفس رجسٹر (قدیم)، ص:۱-۳

۱۳۔ مجلس انتظامیہ، آفس رجسٹر (قدیم)، ص:۵، مرتّب نے تعلیمی کمیٹی جامعہ اسلامیہ کی بیٹھک کا خود مطالعہ کیا ہے۔

۱۴۔ مجلس انتظامیہ، آفس رجسٹر (قدیم)، ص :۶، اس اعلانیے کی زیراکس اس تاریخ کے مرتّب کے پاس موجود ہے۔ اس میٹنگ میں یہ بھی طے کیا گیا کہ کمروں اور برآمدے کو پاٹنے کے لیے فضل اﷲ کو متعین کرایا جائے کہ گاؤں میں مشتہر کر دیں کہ آج ہی جمعہ بعد اپنا اپنا پھاؤڑا اور کھانچی لوگ لے کر چلیں اور پٹائی کا کام شروع کردیں۔

۱۵۔ ماسٹر جنید احمد، یہ جامعہ انہیں کا خواب ہے، ماہنامہ حیات نو، جلد: ۲، شمارہ: ۳، مارچ ۱۹۸۷ء، ص: ۵۵

۱۶۔ مولانا نظام الدین اصلاحی کو مؤرخہ ۱۵؍ مارچ ۱۹۶۱ء کو مدرسۃ الاصلاح کی مجلس منتظمہ کی جانب سے سبک دوشی کا پروانہ عنایت کیا گیا جس میں اس بات کی صراحت ہے کہ ان حضرات (ارکانِ جماعت) کی موجودگی میں مدرسہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنے تعلیمی مقاصد کی تکمیل نہیں کرسکے گا۔ خط مملوکہ مولانا نظام الدین اصلاحی صاحب۔

۱۷۔ روداد جماعتِ اسلامی ہند، اگست ۱۹۴۸ تا جولائی ۱۹۹۶ء، ص:۲۰۷

۱۸۔ غیر مطبوعہ خط از مولانا شبیر احمد اصلاحی، مؤرخہ ۷؍ اگست ۲۰۰۱ء

۱۹۔ مجلس انتظامیہ، آفس رجسٹر (قدیم)، ص :۱۱

۲۰۔ مجلس انتظامیہ، آفس رجسٹر (قدیم)، ص:۹

۲۱۔ مجلس انتظامیہ، آفس رجسٹر (قدیم)، ص :۱۱

۲۲۔ ڈاکٹر غلام نبی تیلی نے مولوی محمد عیسیٰ صاحب سے انٹرویو کے ذریعے یہ قول نقل کیا ہے۔ دیکھیے ان کا مقالہ، ص:۱۲۴

۲۳۔ محمد عارف خاں کا غیر مطبوعہ مخطوطہ۔ محولہ بالا، ص:۸

۲۴۔ ڈاکٹر غلام نبی تیلی نے ڈاکٹر خلیل احمد صاحب سے انٹرویو کے ذریعے ان کا قول نقل کیا ہے۔ دیکھیے ان کا مقالہ، ص:۱۰۳

۲۵۔ مولانا ابو بکر اصلاحی، میرے حبیب، ماہنامہ حیاتِ نو، اگست ۱۹۸۹ء

۲۶۔ غیر مطبوعہ تحریر از مولانا شبیر احمد اصلاحی۔ آفس رجسٹر (قدیم) مجلس انتظامیہ

۲۷۔  مجلس انتظامیہ، آفس رجسٹر (قدیم)، ص :۵

۲۸۔ قدیم رجسٹر برائے تنخواہ کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۴۶ء میں اساتذہ کی تنخواہ ۱۳ روپے، ۱۴ روپے، ۱۶ روپے تھی۔ ۱۹۵۶ء میں ۲۶ روپے، ۳۳ روپے، ۳۵ روپے تھی۔ ۱۹۶۰ء میں ۲۶ روپے، ۲۸ روپے اور ۳۴ روپے مختلف اساتذہ کی تنخواہ ماہانہ متعین تھی۔ قدیم رجسٹر سے اساتذہ کے نام، ان کے مشاہرے، الاؤنس، مدتِ کارکردگی اور اسکیم میں اضافوں کی روداد قلم بند کی جا سکتی ہے۔

۲۹۔ مولانا سلطان احمد اصلاحی نے اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جامعۃ الفلاح کے نصاب میں مدرسۃ الاصلاح کے مقابلے میں زیادہ وسعت اور آج کے حالات سے زیادہ مناسبت ہے۔ تاہم وہ ہر جگہ جامعۃ الفلاح کو مدرسۃ الاصلاح کا عملی مثنیٰ وتوأم قرار دیتے ہیں جو تاریخی طور پر صحیح نہیں ہے۔ دیکھے ان کی کتاب: ہندوستان میں مدارسِ عربیہ کے مسائل، ادارۂ علم وادب، علی گڑھ، ۱۹۹۶ء، ص:۲۹، ۷۸

۳۰۔ مقبول احمد فلاحی، جامعۃ الفلاح کے قیام کے اسباب ومحرکات۔ ماہنامہ حیات نو، اکتوبر ۲۰۰۱ء، ص:۳۴۔ جامعۃ الفلاح کے سلسلے میں جماعتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے فیصلے کا ذکر ’’مکتب اسلامیہ سے جامعۃ الفلاح‘‘ تک کی بحث میں آچکا ہے۔

۳۱۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی، تعلیمات، ص:۶۸

۳۲۔ تعلیمات، حوالہ سابق، ص:۱۶۸

۳۳۔ سید سلیمان ندوی، حیاتِ شبلی، دار المصنّفین، اعظم گڑھ، طبع جدید ۲۰۰۸ء، ص:۲۵۶، ۳۱۵، ۳۱۸، ۳۳۰، ۳۴۷۔ آج ندوہ کے نصاب ونظامِ تعلیم سے حفاظت واشاعتِ اسلام نکل چکا ہے۔ مولانا سلطان احمد اصلاحی نے لکھا ہے کہ آج تحریک ندوہ اپنے ماضی سے الگ راہ پر چل نکلا ہے، وہ خود کفیل تحریک کا مواد پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ندوہ میں فنی تعلیم کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔ دیکھیے ان کی کتاب: ہندوستان میں مدارسِ عربیہ کے مسائل، محولہ بالا، ص:۲۶

۳۴۔ جب کہ مدرسۃ الاصلاح میں مولانا حمید الدین فراہی کے قرآنی افکار کی بنیاد پر قرآن کی محققانہ تعلیم کا انتظام کیا گیا ہے، علومِ حدیث وفقہ کو وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا جس کے یہ متقاضی ہیں۔ علامہ فراہی کے ہاتھوں تحریر کردہ دستور العمل میں اساسی طور پر قرآن وحدیث وفقہ وادبِ عربی کی طرف شدتِ اعتناء کی بات کہی گئی ہے۔ دیکھیے دستور العمل مدرسۃ الاصلاح، حمیدیہ پریس سرائے میر، اعظم گڑھ ۱۹۶۷ء، ص:۲، ۳

۳۵۔ ندوہ میں خدام الدین کی اصطلاح علامہ شبلی کے ساتھ رخصت ہوگئی، جب کہ مدرسۃ الاصلاح نے جو بہت کچھ علامہ شبلی کے زیر اثر تھا، آریوں کے مقابلے کے لیے جفاکش اور قناعت پسند علماء کی ایک جماعت تیار کرنا اور یہیں سے خدام الدین کی ٹیم تیار کرنا چاہی جس کا ذکر علامہ نے اپنے خط بنام حمید الدین فراہی میں کیا ہے۔ دیکھیے حیاتِ شبلی، محولہ بالا، ص:۵۴۵، ۵۴۶۔ ابتدائی دور میں تحریکِ اسلامی کو فکری قائدین کی جو ٹیم ملی اس میں بلامبالغہ مدرسۃ الاصلاح کے متعدد فارغین کا نام لیا جا سکتا ہے مثلاً مولانا اختر احسن اصلاحی، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا ابواللیث اصلاحی اور مولانا صدر الدین اصلاحی، لیکن آج تحریکِ اسلامی نہ صرف حدودِ مدرسہ میں اجنبیت کا شکار ہے بلکہ باہر کی آزاد فضا میں بھی دعوتِ دین کا یہ انبیائی کام فارغین کے لیے توجہ کا باعث نہیں بن پا رہا ہے، قرآنی علوم کے اس مرکز کو جہاں سے ’’اقامتِ دین‘‘ کی قرآنی اصطلاح نے بانیِ تحریکِ اسلامی کو ’’حکومتِ الٰہیہ‘‘ کی اصطلاح کو منسوخ کرنے میں مسرت وشادمانی کا احساس دلایا، نصاب میں کچھ ایسی تجدید کی ضرورت ہے کہ عہدِ جدید کے معلّمِ اوّل علامہ شبلی اور ترجمان القرآن علامہ حمید الدین فراہی کی عملی جدوجہد برائے ’’خدام الدین‘‘ کی تکمیل ہوسکے۔

٭٭٭

(ڈاکٹر ضیاء الدین ملک فلاحی کی مرتبہ کتاب ’’تاریخ جامعۃ الفلاح‘‘ سے ماخوذ۔ ایک دو مقامات پر جزوی حذف واضافے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔)

 

تاریخِ جامعہ سے متعلق مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے:

۱۔ تاریخ جامعۃ الفلاح، ترتیب وتدوین: ڈاکٹر ضیاء الدین ملک فلاحی، ناشر: ادارۂ علمیہ جامعۃ الفلاح، بلریاگنج، اعظم گڑھ، یوپی، نومبر ۲۰۱۲ء۔

2- Jamiatula Falah in its Historical and Educational Perspective: Gulam Nabi Teli, Thesis of Ph.D in Islamic Studies, Under the Supervision of Dr. Obaidullah Fahad Falahi, Department of Islamic Studies, Aligarh Muslim University, Aligarh, India, 2003, 

۳۔ جامعۃ الفلاح کا قیام، ڈاکٹر غلام نبی تیلی، ترجمہ: عبد الرحمٰن زریاب فلاحی، ماہنامہ حیاتِ نو، نومبر ودسمبر ۲۰۰۴ء، ص ۲۱-۴۶ (یہ مضمون ڈاکٹر غلام نبی تیلی کے مذکورہ بالا پی ایچ ڈی کے مقالے کی ایک فصل کا ترجمہ ہے۔)

۴۔ جامعۃ الفلاح کے قیام کے اسباب ومحرکات، مولانا مقبول احمد فلاحی، ماہنامہ حیاتِ نو، اکتوبر 2001ء، ص ۳۴-۴۱۔