ترانۂ فلاح: شبنم سبحانی

 

ہم ہیں پروانے ترے شمع ضیا بارِ فلاح

ہے ہمالہ سے بھی اونچا مرا مینارِ فلاح

مصدرِ کلمۂ حق ہے در و دیوارِ فلاح

ہم ہیں پروانے ترے شمع ضیا بارِ فلاح

ہے ہمالہ سے بھی اونچا مرا مینارِ فلاح

اے کہ ذروں میں ترے بو ئے یقیں، ذوقِ سجود

پرتو افگن تری محرابوں پہ انوارِ وجود

مفت ہاتھ آئے ہیں مستوں کو یہاں جامِ شہود

ہم ہیں پروانے ترے شمع ضیا بارِ فلاح

ہے ہمالہ سے بھی اونچا مرا مینارِ فلاح

ناز ہے ہم کو کہ ہم تیرے جگر بند ہوئے

اہلِ صفہ کی طرح ہم بھی برومند ہوئے

سادگی اور قناعت پہ رضا مند ہوئے

ہم ہیں پروانے ترے شمع ضیا بارِ فلاح

ہے ہمالہ سے بھی اونچا مرا مینارِ فلاح

کتنی رعنائیاں تیرے خس و خاشاک میں ہیں

ریزے الماس و گہر کے جو تری خاک میں ہیں

بجلیاں ایسی کہاں گنبدِ افلاک میں ہیں

ہم ہیں پروانے ترے شمع ضیا بارِ فلاح

ہے ہمالہ سے بھی اونچا مرا مینارِ فلاح

روشنی ہم کو ملی ہے تری قندیلوں سے

آگہی ہم کو ملی ہے ترے جبریلوں سے

زندگی ہم کو ملی ہے ترے مندیلوں سے

ہم ہیں پروانے ترے شمع ضیا بارِ فلاح

ہے ہمالہ سے بھی اونچا مرا مینارِ فلاح

تیری کلیوں کی بشاشت تیرے پتوں کا نکھار

تیری شاخوں کی لچک اور تیرے غنچوں کا وقار

نقش ہے دل پہ ترا پیکرِ گل روئے نگار

ہم ہیں پروانے ترے شمع ضیا بارِ فلاح

ہے ہمالہ سے بھی اونچا مرا مینارِ فلاح

تیرے کوزوں میں نہاں ہم نے سمندر پایا

تیرے ذروں میں جمالِ مہ و اختر پایا

تیرے ویرانے میں اک پھولوں کا لشکر پایا

ہم ہیں پروانے ترے شمع ضیا بارِ فلاح

ہے ہمالہ سے بھی اونچا مرا مینارِ فلاح

ذہن شاداب ہوا عقل کو برنائی ملی

دل کو شائستگیِ انجمن آرائی ملی

دست و بازو کو یہاں قوتِ صحرائی ملی

ہم ہیں پروانے ترے شمع ضیا بارِ فلاح

ہے ہمالہ سے بھی اونچا مرا مینارِ فلاح

تیرے کانٹوں سے لیا درسِ تمنا ہم نے

تیرے قطروں سے سنی قرأتِ دریا ہم نے

تیرے ذروں میں پڑھی آیتِ صحرا ہم نے

ہم ہیں پروانے ترے شمع ضیا بارِ فلاح

ہے ہمالہ سے بھی اونچا مرا مینارِ فلاح

تیشۂ جہد وعمل تجھ سے چلانا سیکھا

پرچمِ حسنِ عمل تجھ سے اٹھانا سیکھا

کوہِ نخوت کو بھی ٹھوکر سے گرانا سیکھا

ہم ہیں پروانے ترے شمع ضیا بارِ فلاح

ہے ہمالہ سے بھی اونچا مرا مینارِ فلاح

یاد فردوس کی آئے وہ فضا تیری ہے

دل میں طوفان اٹھائے وہ ہوا تیری ہے

ہے، یہ تکبیرِ مسلسل کی صدا تیری ہے

ہم ہیں پروانے ترے شمع ضیا بارِ فلاح

ہے ہمالہ سے بھی اونچا مرا مینارِ فلاح