جامعۃ الفلاح: ایک اجمالی تعارف

ملتِ اسلامیہ کی بقا اور ترقی کے لیے نئی نسل کی تعلیم وتربیت ایک بنیادی اور اہم ضرورت ہے۔ اس کا احساس درد مندانِ ملت کو ہر دور میں رہا ہے۔ حالات ووسائل کے اعتبار سے اس بنیادی ضرورت کی تکمیل کی کوشش بھی ہوتی رہی ہے اور ملت کو اس کے ثمرات بھی حاصل ہوتے رہے ہیں۔ لیکن نامساعد حالات میں اغیار کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے کوشش کے باوجود مدارس ومکاتب میں وہ نصابِ تعلیم وتربیت رائج نہیں ہو سکا جو نئی نسل کو قرآن وسنت کا وسیع اور گہرا علم دے، ان میں صحیح دینی بصیرت اور داعیانہ اوصاف پیدا کرے ، عصری علوم سے ان کو آراستہ کرے، تاکہ وہ باطل افکار ونظریات کے مقابلے میں اسلام کا دفاع کرسکیں اور اسلام کو بحیثیتِ نظامِ زندگی انسانیت کے سامنے دلائل کے ساتھ پیش کرسکیں۔ 

بیسویں صدی میں تحریکاتِ اسلامی کی کوششوں کے نتیجے میں اسلامی بیداری کی لہر نے اس بات کا شدید احساس پیدا کیا کہ قرآن وسنت کی بنیاد پر ایک جامع اور مؤثر نظامِ تعلیم وتربیت ترتیب دیا جائے جو دینی اور عصری علوم کے امتزاج پر مبنی ہو۔ چنانچہ اسی احساس کے تحت ۱۹۶۲ء میں ’جامعۃ الفلاح‘  کا قیام عمل میں آیا۔ 

جامعۃ الفلاح کا قیام اسلامی علوم وفنون کی اشاعت وترویج، دینِ اسلام کی خدمت واقامتِ دین اور اسلامی سیرت وکردار کا عملی نمونہ تیار کرنے کے لیے عمل میں آیا ہے۔ اس کی اساس کلمۂ طیبہ ”لا إلہ الا إللہ، محمد رسول اللہ“ کے عقیدہ واقرار پر ہے۔ اس کا نظم ونسق، تعلیم وتربیت اور جملہ امور کا ماخذ کتاب وسنت ہے۔ جامعہ میں کسی ایسے فکر وعمل کی گنجائش نہیں ہے جس سے اسلام کو کسی طرح کا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔

جامعۃ الفلاح کے قیام کے اسباب ومحرکات 

(۱)  قصبہ بلریاگنج ضلع اعظم گڑھ کے شمالی حصے میں ایک ایسی بستی ہے جسے کئی پہلوؤں سے مرکزیت حاصل ہے۔ جب مسلمانوں کے اندر کچھ دینی تعلیم کے سلسلے میں بیداری آئی اور جگہ جگہ مکاتب کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا تو بلریاگنج کے مسلمانوں نے بھی ابتدائی دینی تعلیم کے لیے مکتب کے قیام کا فیصلہ کیا۔ ۱۹۱۴ء میں علی احمد خان مرحوم اور منشی لال محمد مرحوم کی جدوجہد اور اہل قریہ کے تعاون سے جناب ولی خان مرحوم کے مکان میں ’مکتب اسلامیہ‘ کے نام سے درجہ دوم تک کا ایک مکتب قائم ہوگیا۔ لیکن یہ خواہش کم وبیش ہر جگہ پائی جاتی تھی کہ مکتب ترقی کرے، پھلے پھولے، آگے کے درجات کھلیں اور دینی تعلیم کا رواج ہو۔ کہیں یہ خواہش برگ وبارلاتی ہے اور کہیں سینوں میں دب کر رہ جاتی ہے۔ ایک مرحلہ میں اہل بلریاگنج کی خواہش رنگ لائی۔ اس نے حالات کو موافق بنایا اور ۱۹۶۲ء میں مکتب ترقی کرکے جامعہ بن گیا۔ 

(۲) جماعتِ اسلامی ہند کے قیام کے بعد اس کی فکر کو عام کرنے کی کارکنوں کے اندر والہانہ تڑپ تھی۔ اشرف پور کے مولوی جنید احمد صاحب کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں بلریاگنج میں جماعتِ اسلامی کے کارکنان اور ہمدردوں کی ایک ٹیم وجود میں آگئی۔ رفقائے جماعت بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے ایک درس گاہ کے قیام کے آرزو مند ہوتے ہیں۔ چنانچہ اُس وقت کے مشرقی یوپی کے امیر حلقہ مولا نا ملک حبیب اللہ صاحب، مولانا ابو بکر اصلاحی صاحب، حکیم محمد ایوب صاحب، ڈاکٹر خلیل احمد صاحب اور دیگر احبابِ جماعت نے ایک معیاری درس گاہ کے قیام کا منصوبہ بنایا اور اہل بستی کو ساتھ لے کر اس منصوبے کی تکمیل کی جدوجہد کی۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کی مساعی کو شرفِ قبولیت بخشی اور خالص تحریکی طرز کا ادارہ ’جامعۃ الفلاح‘ کے نام سے معرضِ وجود میں آگیا۔

(۳) معرکۂ حیات میں اصل کار فرما قوت اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی مشیت ہی ہے۔ وہ دور تھا جب کہ احبابِ جماعت اسلامی نقطۂ نظر سے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارہ قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ حسنِ اتفاق بلریاگنج سے تعلق رکھنے والے مولوی محمد عیسی صاحب مدرسہ احیاء العلوم سے تعلیم مکمل کر کے وطن واپس آگئے۔ اب ان کی اور احبابِ جماعت کی مشترک خواہش ہوئی کہ گاؤں کے مکتب کو ترقی دی جائے اور عربی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع کیا جائے۔ چنانچہ مولانا کا تقرر بحیثیتِ مدرس کیا گیا اور آپ نے عربی زبان کی ابتدائی کتابیں بھی داخلِ نصاب کیں۔ مگر باقاعدہ نصابِ تعلیم اور نظامِ تعلیم مرتب نہیں ہو سکا تھا۔ یہ ۱۹۵۶ء تا ۱۹۶۰ء کا عبوری دور تھا۔ پھر اتفاق ایسا ہوا کہ مدرسۃ الاصلاح، جو اَب تک احبابِ جماعت کی توجہ کا مرکز تھا، وہاں سے جماعتی فکر رکھنے والے اساتذہ وطلبہ کو الگ ہونا پڑا۔ مولانا عبدالحسیب اصلاحیؒ صاحب جن کا وطن بلریاگنج کے قریب ہے، مدرسۃ الاصلاح سے گھر آگئے اور رفقائے جماعت کی خواہش پر بلریاگنج کے اس ادارہ میں ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۶۱ء سے تدریسی خدمات انجام دینے لگے۔ آپ نے عربی نظامِ تعلیم کو نئے ڈھنگ سے مرتب کیا اور ایک مخصوص عربی نظامِ تعلیم کی بنیاد ڈالی۔ مگر ۱۹۶۲ء کے وسط میں آپ کو اپنے ایک وعدے کے تحت جامعۃ الرشاد جانا پڑا۔ احبابِ جماعت کو موزوں فرد کی تلاش تھی، چنانچہ مولانا عبدالحسیب اصلاحیؒ صاحب کے جاری کردہ نظامِ تعلیم کو آگے بڑھانے کے لیے مولانا شبیر احمد صاحب اصلاحی مفتاحیؒ کی خدمات چند دنوں کے اندر حاصل ہوگئیں۔ موصوف اُن دنوں ارریہ، پورنیہ (بہار) میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے۔ مولانا ۱۹۶۲ء میں بلریاگنج تشریف لائے اور آپ نے مکتب اسلامیہ کا نام ’جامعہ اسلامیہ‘ رکھ کر نئے عزم کے ساتھ کام شروع کیا۔ ۱۹۶۲ء کے آخری ایام میں مدرسے کی انتظامیہ کے ایک فیصلے کے تحت مدرسے کا نام ’جامعۃ الفلاح‘ رکھا گیا اور ۱۹۶۳ء کے اوائل میں باقاعدہ درجہ ہشتم (عربی اول) قائم ہوگیا۔

(۴) ۱۹۶۴ء اس لیے قابلِ ذکر ہے کہ جامعۃ الفلاح کے مشن کو آگے بڑھانے میں اس سال ایک خصوصی مہمیز ملی۔ ۱۹۶۳ء کا عربی اول ۱۹۶۴ء کا عربی دوم ہوگیا اور مدرسۃ الاصلاح سے آنے والے اساتذہ وطلبہ، جنہوں نے پہلے مرحلے میں جامعۃ الرشاد کو مرکز بنایا، پھر وہاں بھی بات نہ بنتی دیکھ کر ۱۹۶۴ء میں بلریاگنج چلے آئے اور اسی سال ان نو واردانِ مہمانانِ رسول سے عربی سوم اور عربی چہارم قائم ہوگیا۔

(۵) مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ وہ درمیانی مدت (۱۹۵۶ء تا ۱۹۶۱ء) جب جامعۃ الفلاح تشکیلی مراحل سے گذر رہا تھا، اُنہیں ایام میں گاؤں میں ہائی اسکول کے قیام کی مہم چلی۔ اہلِ بستی نے اس میں نہایت جوش وخروش سے حصہ لیا۔ اسکول کی عمارت کھڑی کی گئی، مگر قبل از وقت برسات شروع ہو جانے سے وہ زیر تعمیر عمارت زمیں بوس ہوگئی۔ اس واقعے نے اُن کا رخ اِس مکتب کی طرف پھیر دیا اور لوگوں نے یکسو ہو کر مکتب کی تعمیر وترقی پر اپنی قوت جھونک دی اور چند دنوں میں مکتب جامعہ کی شکل اختیار کر گیا۔ 

اِن سارے واقعات پر غور کرنے سے واضح طور پرجو تصویر ابھرتی ہے وہ یہ کہ بلریاگنج کے مکتب کو جامعہ بننے کے پیچھے اصل کارفرما قوت صرف اور صرف مشیتِ ربانی ہے۔ اس کے یہاں یہ فیصلہ ہو گیا تھا کہ بلریاگنج میں عظیم تحریکی وتعلیمی ادارہ بنے۔ اس نے یکے بعد دیگرے ایسے اسباب اکٹھا کر دیے کہ نہایت سہولت سے یہ مرحلہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ 

دوسرا سبب جماعت اسلامی سے وابستہ افراد کی فکر، لگن اور قربانی ہے، جس نے ایک قلیل عرصے میں درجہ دوم تک کے ایک مکتب کو جامعہ کی شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 

تیسرا سبب بستی اور اطراف میں دینی تعلیم سے آراستہ ہو کر واپس آنے والے احباب ہیں۔ اس کے علاوہ مدرسۃ الاصلاح سے وابستگانِ جماعت کا جدا ہونا بھی ہے۔ 

جامعۃ الفلاح: منزل بہ منزل

۱۹۱۴ء میں ولی خاں مرحوم کے مکان میں درجہ دوم تک ایک مکتب کھلا اور دو سال تک چلتا رہا۔ ۱۹۱۶ء میں مدرسے کے لیے مٹی اور کھپریل کی ایک عمارت تعمیر ہوئی۔ یہ عمارت موجودہ مولانا مودودیؒ ہاسٹل کے جنوب جانب تھی۔ ۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۷ء تک منشی لال محمد مرحوم بحیثیتِ استاد اور علی احمد خاں مرحوم بحیثیتِ منیجر خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۹۲۷ء میں علی احمد خاں مرحوم اپنے صاحب زادے محمد حنیف کو مدرسہ اسلامیہ کا ذمے دار بنا کر حج کو چلے گئے اور وہیں وفات پاگئے۔ ۱۹۲۷ء سے ۱۹۵۴ء تک جناب محمد حنیف خان مرحوم مدرسے کے منیجر رہے۔ ان کو عام طور سے منیجر صاحب کے نام سے ہی یاد کیا جاتا تھا۔ محمد حنیف خان مرحوم ۱۹۵۴ء میں مدرسے کا انتظام حاجی امانت اللہ صاحب کے سپرد کرکے حج کرنے چلے گئے۔ کچھ دنوں کے بعد حاجی عبدالمجید خاں مرحوم کو منیجر بنایا گیا۔ حاجی عبدالمجید خاں کے دور میں مکتب نے ترقی شروع کی اور جناب محمد اکرام صاحب پردھان کے دورِ نظامت میں مدرسہ اسلامیہ پہلے ’جامعہ اسلامیہ‘ اور پھر ’جامعۃ الفلاح‘ بن گیا۔

اس دوران متعدد اساتذہ نے بحیثیتِ مدرّس مدرسے میں تعلیم دی، مگر سب سے نمایاں نام مولوی محمد ادریس صاحب (ہنگائی پور) کا ملتا ہے۔ موصوف نے ۱۹۳۲ء سے ۱۹۹۰ء تک ایک تسلسل کے ساتھ مدرسے کی خدمت کی۔ مدرسے کی تعمیر وترقی میں ان کی خدمات کا بڑا حصہ ہے۔ درمیانی مدت میں پانچویں جماعت تک اُردو، فارسی اور عربی ناظرہ کی تعلیم کا انتظام تھا۔ ایک مرحلے میں محکمۂ تعلیم کے ڈپٹی انسپکٹر جناب عبد المبین صاحب نے مشورہ دیا کہ گاؤں میں سرکاری اسکول کی موجودگی میں پانچویں جماعت تک تعلیم کا انتظام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، درجہ دوم، سوم تک مکتب چلائیے اور اُردو، فارسی کے ساتھ حساب وغیرہ بھی پڑھائیے، اس کے بعد بچے سرکاری اسکول میں داخلہ لے لیا کریں گے۔ اس طرح مکتب کی نہ صرف ترقی رک گئی، بلکہ چند درجات بھی توڑ دیے گئے۔

۱۹۵۶ء تک یہ ادارہ مدرسہ اسلامیہ، مکتب اسلامیہ یا مکتب امدادیہ کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ درجہ دوم تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد بچے سرکاری اسکول میں داخلہ لیتے رہے۔ اس دوران اساتذہ کی تقرری، فنڈ کی فراہمی اور حساب وکتاب وغیرہ تمام انتظامی امور میں منیجر کو کلی اختیارات حاصل تھے۔ سال میں ایک بار اپریل یا مئی میں سالانہ گوشوارۂ آمد وصرف گاؤں کی عمومی پنچایت میں پیش ہوا کرتا تھا۔

۲۰؍ جولائی ۱۹۵۶ء کی تاریخ اس اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے کہ اس تاریخ کو پورے گاؤں کا ایک عام اجلاس ہوا۔ گاؤں کے ۵۲؍ افراد کو خصوصی دعوت دی گئی۔ دعوت نامہ مولوی محمد ابراہیم صاحب کے بدست جاری ہوا۔ اس اجلاس میں چند اہم فیصلے ہوئے:

(۱) ادارے کا ایک مختصر دستور منشی محمد فوجدار مرحوم کے ہاتھوں کا مرتب کیا ہوا، منظور ہوا۔ 

(۲) ادارے کا نام مکتب اسلامیہ، مکتب امدادیہ کے بجائے مدرسہ اسلامیہ رکھا گیا۔ 

(۳) عبدالمجید خان مرحوم کو باقاعدہ ناظم مقرر کیا گیا۔ 

(۴) تنظیمی وتعلیمی امور کی انجام دہی کے لیے انتظامی کمیٹی اور تعلیمی کمیٹی کی تشکیل ہوئی۔ 

(۵) درجہ سوم کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس طرح ۱۹۵۶ء میں درجہ سوم، ۱۹۵۷ء میں درجہ چہارم اور ۱۹۵۸ء میں درجہ پنجم قائم ہوا۔ اسی سال درجہ پنجم پاس کرکے پہلابیچ فارغ ہوا۔ ادارے کے پہلے مرحلے کی اس ترقی میں مولوی خلیل احمد صاحب (غازی پور)، مولوی محمد ادریس صاحب (ہنگائی پور)، مولوی عبدالقدوس صاحب (چھتر پور)، مولانا عبدالرؤف قاسمی صاحب (مبارک پور)، ماسٹر محمد احمد صاحب (بلریاگنج)، منشی محمد انور صاحب (بلریاگنج) کا نام بحیثیتِ معلّم قابلِ ذکر ہے۔ ان حضرات نے تدریس کے ساتھ ساتھ طلبہ اور اہلِ بستی کے اندر تحریکی شعور پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا اور ہفتہ وار اجتماعات ہونے لگے۔ طلبۂ جامعہ نے بھی اس میں حصہ لینا شروع کیا اور مدرسے کے باہر مضافات میں ا ن کی تقاریر کا سلسلہ قائم ہوا۔

۱۹۵۹ء تا ۱۹۶۲ء یہ وہ عبوری دور ہے جس میں مکتب نے عربی ادارے کی دہلیز پر قدم رکھا۔ پہلے غیر واضح، غیر مربوط عربی کتب کا اضافہ ہوا۔ رفتہ رفتہ شکل واضح ہوتی گئی اور باقاعدہ نصاب نافذ ہوا۔ دسمبر ۱۹۶۲ء میں ’جامعۃ الفلاح‘ نام رکھا گیا اور اگلے سال درجہ ہشتم کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔ گویا اسی دوران (۱۹۵۹ء تا ۱۹۶۲ء) درجہ ششم اور ہفتم کا اضافہ ہوا۔ اسی مدت میں مولوی عیسی صاحب اور مولوی رحمت اللہ صاحب کا برائے دینی وعربی علوم اور ماسٹر جنید احمد صاحب اور محمد ادریس صاحب کا برائے جدید علوم تقرر ہوا۔ عربی، اُردو، فارسی، ہندی، انگریزی، حساب، تاریخ وجغرافیہ، جنرل سائنس اور جلد سازی وباغبانی پر مشتمل جامع نصاب زیر عمل آیا۔ جماعتِ اسلامی کی تیار کردہ درسی کتب نصاب کے لیے منظور کی گئیں اور درجہ پنجم تک ڈسٹرکٹ بورڈ سے الحاق بدستور قائم رہا۔ ۱۹۶۰ء میں فیصلہ کیا گیا کہ ڈسٹرکٹ بورڈ سے الحاق ختم کر دیا جائے، تاکہ ادارہ آزاد رہ کر اپنی پالیسی کے مطابق کام کر سکے اور حکومت کی بے جا مداخلت سے محفوظ رہ سکے۔

اوپر ذکر آچکا ہے کہ ۱۹۵۶ء میں باقاعدہ انتظامی کمیٹی اور تعلیمی کمیٹی بن گئی تھی۔ اب ۲؍ مئی ۱۹۶۰ء کو جامعہ اسلامیہ کی جنرل میٹنگ اُس وقت کے ناظم جناب حاجی عبدالمجید مرحوم کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ اس اجلاس میں پہلی مجلسِ عاملہ کا انتخاب عمل میں آیا۔ ۵ا؍ مئی ۱۹۶۰ء کے مجلسِ عاملہ کے اجلاس میں حاجی عبدالقدوس صاحب کو صدر، جناب محمد اکرام صاحب کو منیجر وخازن اور ڈاکٹر خلیل احمد صاحب کو سکریٹری مقرر کیا گیا۔ 

مجلسِ عاملہ کی ایک نشست ۲۸؍ مئی ۱۹۶۱ء کو منعقد ہوئی اور تین اہم قرار دادیں پاس کی گئیں:

(۱) ادارہ آزاد رہ کر اپنی تعلیمی پالیسی اسلامی دائرے میں متعین کرے گا۔ 

(۲) ایسا نصابِ تعلیم زیر عمل لایا جائے جس سے طلبہ اسلام سے روشناس ہوسکیں۔ 

(۳) دس سال کی عمر تک لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں گی۔ اس کے بعد ان کو ہٹا دیا جائے گا اور ان کی تعلیم کا الگ بندوبست کیا جائے گا۔ 

۱۹۶۱ء میں مولانا عبدالحسیب اصلاحیؒ تشریف لائے۔ نصاب مربوط ہوا۔ پھر چند ماہ بعد موصوف کے جامعۃ الرشاد چلے جانے پر ۱۹۶۲ء میں مولانا شبیر احمد اصلاحیؒ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ آپ نے مدرسے کا نام مدرسہ اسلامیہ سے بدل کر ’جامعہ اسلامیہ‘ رکھا اور پھر چند ماہ بعد دسمبر ۱۹۶۲ء میں انتظامیہ نے فیصلہ کر کے ’جامعۃ الفلاح‘ رکھا۔ جون ۱۹۶۲ء میں جناب افضل حسین صاحب مرحوم (ناظم مرکزی درس گاہ جماعتِ اسلامی ہند رام پور) کی سرپرستی میں اساتذہ کا ایک تدریسی کیمپ پندرہ روز کے لیے منعقد کیا گیا اور اساتذہ کو جماعتی نہج پر تعلیم وتربیت کی ٹریننگ دی گئی۔ 

جب مولانا شبیر احمد اصلاحیؒ جامعہ تشریف لائے تو آپ کے ساتھ چند طلبہ بھی آئے اور یہیں سے بورڈنگ کا نظم شروع ہوا۔ کچھ طلبہ گاؤں سے آکر درس گاہ میں رہنے لگے۔ کھانا اپنے گھر کھاتے اور قیام مدرسے میں کرتے۔ ابتدا میں بیرونی طلبہ کے کھانے کا نظم گاؤں کے اہلِ خیر حضرات کے یہاں کر دیا گیا۔ ۱۷؍ دسمبر ۱۹۶۲ء کو انتظامیہ نے مطبخ کے قیام کا فیصلہ کیا اور اوائل ۱۹۶۳ء سے مطبخ کے زیر انتظام طلبہ کے کھانے کا اہتمام شروع ہوگیا۔ ۱۹۶۱ء، ۱۹۶۲ء میں موجودہ مودودی ہاسٹل کا نچلا حصہ جس میں ایک ہال، چار بڑے کمرے، دو چھوٹے کمرے تعمیر ہوچکے تھے، یہی پہلا دار الاقامہ اور شعبۂ اعلیٰ کا پہلا دار التعلیم تھا۔ 

جامعۃ الفلاح کے وجود میں آنے کے بعد جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے، ۱۹۶۳ء میں درجہ ہشتم یعنی عربی اول قائم ہوا۔ جامعہ کے پہلے صدر مدرس مولانا شبیر احمد اصلاحی ہیں اور پہلے ناظم جناب محمد اکرام پردھان ہیں۔ ۱۹۶۴ء میں عربی اول تا عربی چہارم تعلیم ہونے لگی۔ ۱۹۶۵ء میں عربی پنجم قائم ہوا اور ۱۹۶۶ء میں عربی ششم اور ۱۹۶۷ء میں تین طلبہ پر مشتمل پہلا بیچ جامعہ سے فارغ ہوا۔